چیف جسٹس آف پاکستان نے موبائل کارڈز پر ٹیکس کٹوتی روک دی۔
سپریم کورٹ مین موبائل کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ چئیرمین ایف بی آر عدالت میں پیش ہوئے انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ موبائل کالز پر سروسز چاجز کی کٹوتی کمپنیز کا ذاتی عمل ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جو شحض ٹیکس نیٹ میں نہیں آتا اس سے ٹیکس کیسے وصول کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل تو ریڑھی والا بھی موبائل فون استعمال کرتا ہے وہ ٹیکس نیٹ میں کیسے آگیا۔ چئیرمین ایف بی آر نے کہا کہ ایک سو تیس ملین افراد موبائل استعمال کرتے ہیں۔
ملک بھر میں ٹیکس دینے والے افراد کی مجموعی تعداد پانچ فیصد ہے۔ پانچ فیصد لوگوں سے ٹیکس لینے کے لیے ایک سو تیس ملین پر موبائل ٹیکس کیسے لاگو ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹیکس دہندہ اور نادہندہ کے درمیان فرق واضح نہ کرنا امتیازی سلوک ہے۔ آئین کے تحت امتیازی پالیسی کو کلعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے موبائل کارڈز پر ٹیکس کٹوتی روک دی۔ عدالت نے دو یوم میں عدالتی فیصلے پر تاحکم ثانی عمل درآمد کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ عدالت امتیازی سلوک برداشت نہیں کرسکتی۔ یہاں لوگوں سےلوٹ مارکی جارہی ہے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ موبائل فون کارڈزپرٹیکس وصولی کیلئے جامع پالیسی بنائی جائے۔