موجودہ سینیٹ کا پہلا پارلیمانی سال مکمل ہوگیا
موجودہ سینیٹ کا پہلا پارلیمانی مکمل ہوگیا، دونوںبڑی اتحادی اپوزیشن جماعتیں12مارچ 2018ء میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں مد مقابل آگئی تھیں، تحریک انصاف کے حمایتی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے تھے ، اس وقت کے حکمران اتحاد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، مشترکہ دوست سینیٹ انتخابات کے معاملے پر آصف علی زرداری اور عمران خان کو قریب لانے میں کامیاب رہے۔چیئرمین سینیٹ محمدصادق سنجرانی نے سال مکمل ہونے پر کارکردگی کو انتہائی اچھا قراردیا ہے، اپنے پیغام میں انھوں نے ارکان سینیٹ کو مبارک باددیتے ہوئے کہا ہے کہ ملکوں کو قریب لانے کے لیے پارلیمانی سفارت کاری ضروری ہے، منتخب نمائندے نہ صرف قانون سازی کرنے کے حوالے سے مشاورت کرتے ہیں بلکہ پارلیمان ہی عوام کوقریب لاسکتے ہیں یہی اصل فورم ہے ۔ اس خبر رساں ادارے کی پارلیمانی رپورٹ کے مطابق ماضی کی طرح اب بھی ایوان بالا میں وزراء کی حاضری کا مسئلہ درپیش رہا، ایک وفاقی وزیرکو پابندی کا سامنا کرنا پڑا ۔حکومتی وعدے کے مطابق وزیراعظم باقاعدگی سے ایوان بالا میں نہ آسکے ۔قراردادوں پر عملدرآمد بھی نہ ہوسکا، سانحہ ساہیوال پر بھی ایوان بالا کی سفارشات کو حکومت نے پس پشت ڈال دیا ،ایوان بالا نے اتفاق رائے سے سانحہ ساہیوال سے متعلق پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کو مستردکرتے ہوئے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا سینیٹ کے آج مکمل ہونے والے پارلیمانی سال میں گیارہ اجلاس ہوئے ۔اس گزرے پارلیمانی سال میں27قراردادیں منظور ہوئی ۔24توجہ دلا نوٹس پر بحث ہوئی ۔دونوں ایوانوں سے پاس ہو کر ایکٹ بننے والے بلوں کی تعداد35 ہے ۔اس ختم ہونے والے پارلیمانی سال میں چیئرمین سینیٹ کی طرف سے مختلف امور پر چار رولنگ دی گئیں۔ نجی اراکین قومی اسمبلی کے 9 بل ایوان بالا میں پیش ہو ئے۔موجودہ پارلیمانی سال میں سینیٹ میں نجی اراکین کے 30بل پیش ہوئے ۔سال دو ہزار انیس میں نجی اراکین سینیٹ نے6بل پیش ہوئے منظور ہونے والی اہم قراردادوں میں بھارتی جارحیت اور جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیرپر پابندی کے خلاف مشترکہ قراردادیں شامل ہیں اسی طرح اہم بلزمیں نجی قرضوں پر سود کے خلاف بھی متفقہ طورپر سینیٹر سراج الحق کے بل کی منظوری بھی شامل ہے،موجودہ چیرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیرمین کا انتخاب12مارچ2018کو عمل میں آیا تھا ۔بلوچستان کے وزیر اعلی عبدالقدوس بزنجو آصف علی زرداری اور عمران خان کو قریب لانے میں کامیاب رہے تھے جس پر اس وقت کے حکمران اتحاد کو اس الیکشن میں شکست ہوئی ۔سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی اکثریت ہے تاہم اس کے امیدوار ہار گئے تھے ۔ ایم کیو ایم نے اگرچہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو تو ووٹ دیا تھا لیکن چیرمین سینٹ کے لئے راجہ ظفر الحق کو ووٹ نہیں دیا۔اس طرح مسلم لیگ (ن) کے اپنے دورحکومت میں اپوزیشن اتحاد نے حکمران اتحاد کو شکست دیدی تھے ،اپوزیشن اتحاد کے نامزد امیدوار صادق سنجرانی57ووٹ لیکر چیئرمین سینٹ منتخب ہوگئے جبکہ ان کے مدمقابل حکومتی اتحاد کے راجہ ظفرالحق کو46ووٹ ملے اس کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینٹ کیلئے پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے نامزدکردہ سلیم مانڈیوالا 54ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ مسلم لیگ ن اوران کے اتحادیوں کے نامزد کردہ امیدوار عثمان خان کاکڑ کو44ووٹ ملے ۔جمیعت علما ء اسلام (ف)اوراور عوامی نیشنل پارٹی نے مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کا ساتھ دیا تھا