کشمیر کے بعد مودی اب اس ماڈل کو پورے ہندوستان میں نافذ کرنا چاہتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز
امریکہ کے موقر اخبار نیو یارک ٹائمز نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ، اخبار نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ مودی کے زیر سایہ بھارت دوسرا کشمیر بننے جا رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے مودی سرکار کو ایک بار پھر آئینہ دکھا دیا اور دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کو ہلا ڈالا۔ مودی، بھارتی جمہوری اقدار کا بدترین دشمن ثابت ہوگیا اور امریکہ سے لے کر برطانیہ تک ہندوستان کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن گیا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے پابندی کے شکار اخبار کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انو رادھا بھاسن نے نیویارک ٹائمز میں اداریہ لکھ کر مودی سرکار پر سوالات اٹھادئیے۔ 2019میں کشمیر ٹائمز نے انٹرنیٹ بندش پر مودی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ انتقاما مودی سرکار نے اخبار ہی بند کروا دیا۔ 66سالہ پرانا اخبار مودی کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا۔ صرف 2023میں بھارت میں انسانی حقوق اور گرتے صحافتی معیاروں پر نیو یارک ٹائمز کا یہ گیارہواں اداریہ ہے۔ نیویارک ٹائمز نے کہا کہ مودی نے ہندوستان میں عدم برداشت اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کو عام کیا ہے۔ مودی پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو انکم ٹیکس چھپانے دہشتگردی یا علیحدگی پسندی کے الزامات کی آڑ میں دھمکایا جاتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اشتہارات اور فنڈز کی آڑ میں اخبارات کو من پسند خبریں شائع کرنے کیلئے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ 2014میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی منظم طریقے سے عدالتوں اور سرکاری مشینری کو کنٹرول کر رہا ہے۔ کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انو رادھا بھاسن نے نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ مودی کی آمریت کی راہ میں اب صرف بچا کچھا میڈیا کھڑا ہے، مودی سرکار میڈیا کو حکومتی ٹٹو بنانے کے لیے اوچھے جبری ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، مودی کے صحافت دشمن اقدامات سے بھارت میں معلوماتی خلا پیدا ہو گیا ہے۔ کشمیر کے بعد مودی اب اس ماڈل کو پورے ہندوستان میں نافذ کرنا چاہتا ہے۔ مودی نت نئے قوانین کے ذریعے آزادیِ اظہار کا گلہ گھونٹ رہاہے۔ مودی سرکار نے20سے زائد تنقیدی صحافیوں کا نام نو فلائی لسٹ میں ڈال دیا۔1990سے2018تک کشمیر میں 19صحافیوں کے جاں بحق ہونے کے باوجود صحافت کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ مودی کے دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد صحافتی سانحہ جنم لے رہا ہے۔ پابندیوں سے بچنے اور معاشی فوائد کی خاطر بھارتی میڈیا مودی کا ترجمان بنا ہوا ہے۔بی بی سی کی مودی مخالف سیریز کی نشریات روکنا اور انکم ٹیکس کی آڑ میں دفاتر پر حملے صحافتی آوازوں کو دبانے کے ہتھکنڈے ہیں۔ عالمی میڈیا کے بار بار آواز اٹھانے پر کیا اقوامِ عالم مودی کے فاشسٹ ایجنڈے پر کوئی نوٹس لیں گی؟