نواز شریف کے دور میں ایل این جی کے معاہدے میں پاکستان کو 61 کروڑ ڈالر کی بچت ہوئی
امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سینیٹ کی پیٹرولیم کمیٹی کے سامنے حکومتی مارکیٹنگ کمپنی نے رپورٹ پیش کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے قطر سے دو سال تک مذاکرات کیے مگر قطر نے گیس کی قیمت کم کرنے سے انکار کیا تو مذاکرات جمود کا شکار ہو گئے۔ اس موقع پر 2015 میں پاکستان نے اوپن مارکیٹ سے مائع گیس کے 120 کارگو خریدنے کا ٹینڈر جاری کیا۔ جس پر رائل ڈچ شیل، سوئٹزرلینڈ کی گن وور اور برٹش پٹرولیم نے گیس سپلائی کی پیشکشیں کیں۔
سب سے سستی پیشکش گن وور نے کی۔ اس موقع پر قطر نے مذاکرات پھر سے شروع کر دیے اور پاکستان سے کہا کہ وہ اس قیمت پر مائع گیس فراہم کرنے کو تیار ہے جس کی پیشکش گن وور نے کی ہے۔ یوں پاکستان کو 61 کروڑ ڈالر کی بچت ہوگی۔
پاکستان نے قطر کے ساتھ تین اعشاریہ پچھتر میٹرک ٹن سالانہ مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ کیا۔ پاکستان یہ گیس 15 سال تک خریدے گا۔ پاکستان نے مائع گیس کی خریداری کا فیصلہ ملک میں گیس کی کم ہوتی ہوئی پیداوار کے باعث کیا تھا جس کے باعث فیکٹریاں بند ہو رہی تھیں۔
بلوم برگ کے مطابق پاکستان اس سال اگست تک دنیا میں مائع گیس کا ساتواں بڑا خریدار بن چکا ہے۔
قطر سے معاہدے کے کچھ حصے اشاعت سے روکنے کی وجہ سے اس ڈیل سے متعلق شبہات پیدا ہوئے تھے۔ پاکستان اور قطر دونوں ملکوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ڈیل کے بعد پہلے دس سال قیمت میں کوئی ردوبدل نہیں کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو یہ گیس دوسرے خریداروں کو بیچنے کی بھی اجازت ہوگی۔
پاکستان نے قطر سے یہ معاہدہ نواز شریف دور میں کیا تھا جب شاہد خاقان عباسی پٹرولیم کے وزیر تھے۔ تحریک انصاف اس معاہدے پر تنقید کرتی اور شاہد خاقان عباسی کو نشانہ بناتی رہی ہے جب کہ مسلم لیگ ن اور شاہد خاقان عباسی اس معاہدے کا دفاع کرتے رہے ہیں۔