محمد اشرف صحرائی کو بھارتی قید میں تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے چار خصوصی نمائندوں نے تحریک حریت کے رہنما محمد اشرف صحرائی کی دوران قید شہادت پر "شدید تشویش" کا اظہار کیا ہے اور بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ دوران حراست ان کی موت کے معاملے کی تحقیقات کرے۔ صحرائی کی حراست میں ہونے والی موت کی فوری ، مکمل ، آزاد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائیں تاکہ ان کی موت کی حقیقت سامنے آسکے ، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کے دوران قید ان سے بدسلوکی کی گئی ، تشدد کیا گیا اور یہ کہ کیا ان کا علاج کیا گیا۔کے پی آئی کے مطابق ماورائے عدالت سزا سے متعلق یواین کے خصوصی نمائندے مورس ٹڈ بال بنزMorris Tidball-Binz، جبری طور پر لاپتہ افراد بارے یو این ورکنگ گروپ کے سربراہ ٹلنگ موفکنک Tlaleng Mofokeng,، جسمانی اور ذہنی صحت کے اعلی ترین قابل حصول معیار سے متعلق نمائندے Tae-Ung Baik, اورظالمانہ ، غیر انسانی یا ہتک آمیز سلوک یا سزا بارے یواین کے نمائندے نلس ملزرNils Melzer, نے محمد اشرف صحرائی کی دوران قید شہادت پر بھارتی حکومت کو ایک مشترکہ خط روانہ کیا ہے ۔ اس خط میں بھارتی حکومت سے24 سے زیادہ سوالات کے جوابات طلب کیے ہیں۔ بھارتی حکومت کو لکھے گئے مشترکہ خط میں کہا گیا ہے کہ ہم جیل میں قیدکے دوران ان کی مناسب طبی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بھی پریشان ہیں۔"انہوں نے بھارتی حکومت سے کہا کہ صحرائی کی موت کے حوالے سے انسانی حقوق کونسل کی طرف سے انہیں فراہم کیے گئے مختلف معاملات پر وضاحت دے،صحرائی کی گرفتاری اور حراست کے قانونی بنیادکے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرے ۔ بھارتی حکومت کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ صحرائی کے علاج اور حراست میں اس کی صحت کا خیال رکھنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی جائیں۔محمد اشرف صحرائی بڑھاپے کی وجہ سے بیماویوں کا شکار تھے۔ کس وجہ سے محمد اشرف صحرائی گورنمنٹ میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیا ؟ اور وہاں ان کی موت کیسے ہوگئی ؟ صحرائی کی کی حراست میں موت کے بارے میں اگر کوئی انکوائری ہوئی ہے تو بتایا جائے ۔ ن کے علاج کی دستاویزات ، مرض کی تشخیص ،موت کے سرٹیفکیٹ، پوسٹ مارٹم رپورٹ کی تفصیلات بتائی جائیں۔ کیا ان کے مرض کی تشخیصی دستاویزات ان کے خاندان سے شئیر کی گئیں؟ بھارتی حکومت محمد اشرف صحرائی کے دو بیٹوں مجاہد اشرف خان اور رشید اشرف خان کی موجودہ حیثیت کے ساتھ ساتھ ان کی گرفتاری کے حقائق اور قانونی بنیادوں پر تفصیلی معلومات ، ان کی مسلسل حراست اور ان کے ساتھ انسانی سلوک کو یقینی بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی وضاحت کریں۔ کیا انہیں دوران حراست ، ان کے اہل خانہ اور ان کے وکلا تک رسائی حاصل ہے؟ بھارتی حکومت اس مقدمے کی سماعت بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں اور قوانین( جن کے معائدوں پر بھارت شامل ہے )کے مطابق یقینی بنائے۔ ، محمد اشرف صحرائی کو 12 جولائی 2020 کو کئی مسلح فوجیوں نے سادہ لباس میں ، بغیر وارنٹ گرفتاری کے" گرفتار کیا تھا۔ صحرائی پر پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور اسے صدر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ اس کے خاندان کو بعد میں بتایا گیا کہ وہ جموں کی ادھمپور ڈسٹرکٹ جیل میں ہے۔ان کے خاندان نے بعد میں ، اکتوبر 2020 میں ، ادھمپور ڈسٹرکٹ جیل کا سفر کیا تاکہ اس کے ٹھکانے کے بارے میں دریافت کیا جاسکے۔ "تاہم ، انہیں ٹھکانے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملی ، جیل میں سیکورٹی افسران اور ایک بھارتی فوج کے افسر کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں ، اور واپس نہ آنے کو کہا گیا۔"صحرائی کو 1965 میں بھی گرفتار کیا گیا تھاوہ 16 سال سے زیادہ ہندوستان کی مختلف جیلوں میں رہے ۔ 12 جولائی 2020 کو گرفتاری کے بعد جموں کشمیر ہائی کورٹ میں کیس دائر کرنے کے باوجود ، صحرائی کو رہا نہیں کیا گیا۔اان کے خاندان نے ا ن کے علاج کو یقینی بنانے کے لیے مذکورہ عدالت کے سامنے تین درخواستیں دائر کیں۔ "عدالت نے درخواستوں کی سماعت میں تاخیر کی - جس کے نتیجے میں ضروری طبی دیکھ بھال میں تاخیر ہوئی اور حراست میں رہتے ہوئے مسٹرصحرائی کی صحت کی حالت خراب ہوگئی۔"اہل خانہ نے ادھم پور جیل سے سینٹرل جیل سرینگر منتقل کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔اطلاعات کے مطابق صحرائی کو اس سال جنوری میں ہر دوسرے ہفتے اپنے خاندان کو فون کرنے کی اجازت تھی۔ تاہم ، وہ آخری فون کال اپریل 2021 کے اوائل میں کرنے میں کامیاب ہوئے تھے موت سے تین ہفتے پہلے۔ایک فون کال میں ، اس نے اپنی بگڑتی ہوئی صحت ، تنہائی میں رکھنے اور مناسب طبی دیکھ بھال تک رسائی نہ ہونے کی شکایت کی تھی ۔صحرائی ہائی بلڈ پریشر اور دائمی گردوں کی بیماری (میں مبتلا تھے ۔ دوران ھراست انہیں جان بچانے والی ادویات تک رسائی نہیں تھی۔3 مئی 2021 کو ادھم پور ڈسٹرکٹ جیل سے تعلق رکھنے والے ایک ملازم نے صحرائی کے ایک رشتہ دار کو اطلاع دی کہ اسے گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں میں داخل کرایا گیا ہے۔ جب 4 مئی 2021 کو رشتہ دار وہاں پہنچے تو انہیں مسٹر صحرائی سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ تقریبا 10 گھنٹے کے انتظار کے بعد ، انہیں بتایا گیا کہ وہ مر گیا ہے۔"میڈیکل کالج کے عملے نے اہل خانہ کو آگاہ کیا کہ انہیں لاش نہیں دی جائے گی۔" خاندان نے اس فیصلے کے خلاف ہسپتال میں احتجاج کیا۔ اس کی باقیات کو 5 مئی 2021 کو خاندان کے حوالے کیا گیا ، بغیر کسی سرکاری وضاحت کے۔صحرائی کے جنازے کے بعد ان کے بیٹوں مجاہد اشرف خان اور رشید اشرف خان کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا اور وہ حراست میں ہیں۔ ان پر غیر قانونی سرگرمیاںکی روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور انہیں مختلف جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔صحرائی کی موت کی وجہ کرونا کے باعث ڈبل نمونیا اور آکسیجن کی کم سطح بتائی گئی تاہم وہ ادویات تک رسائی اور جیل میں مناسب طبی دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے چل بسے ۔ ، بھارتی حکام نے ابھی تک صحرائی پر تشدد کے الزامات اور حراست میں ان کی موت کی وجوہات کی تحقیقات شروع نہیں کی ہیں۔""اگر تشدد کی تصدیق ہو جاتی ہے تو سنگین معاملہ ہے۔ سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کے آرٹیکل 6 ، 7 اور 9 کے تحت یہ سنگین جرم ہے ۔ کے پی آئی کے مطابق .اقوام متحدہ نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ 60 دنوں کے اندر جواب بھیجے۔ جواب کا انتظار کرتے ہوئے زور دیا گیا ہے کہ عالمی قانون اور انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کو پورا کیا جائے۔ صحرائی کے دو زیر حراست بیٹوں کے انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔ ماورائے عدالت سزا سے متعلق خصوصی نمائندے مورس ٹڈ بال بنزMorris Tidball-Binz، جبری طور پر لاپتہ افراد بارے یو این ورکنگ گروپ کے سربراہ ٹلنگ موفکنک Tlaleng Mofokeng,، جسمانی اور ذہنی صحت کے اعلی ترین قابل حصول معیار سے متعلق نمائندے Tae-Ung Baik, اورظالمانہ ، غیر انسانی یا ہتک آمیز سلوک یا سزا بارے یواین کے نمائندےNils Melzer, نے مشترکہ خط پر دستخط کیے ہیں