موجودہ بینچ توہین عدالت کیس کی سماعت نہیں کرسکتا جبکہ صدارتی استثنٰی کی بناء پر فی الحال عدالتی حکم پر عملدرآمد بھی ممکن نہیں۔ اعتزاز احسن
جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت موجودہ بینچ توہین عدالت کیس کی سماعت نہیں کرسکتا۔ موجودہ بینچ نے نوٹس جاری کیا اور فرد جرم عائد کی لہذا اب توہین عدالت کا معاملہ دوسرے بینچ کو بھیجا جانا چاہیے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل دس کے تحت جن ججز نے توہین عدالت کیس شروع کیا ہو وہ نااہل قرار نہیں دے سکتے۔ اس موقع پرجسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت میں جج شو کاز نوٹس جاری کرتا ہےاور پوچھتا ہے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف کارروائی کی جائے؟ یہ کارروائی نہیں جس کی آپ نشاندہی کر رہے ہیں، یہ غلط مطلب ہے کہ سزا دینے کیلئے عدالت کا ذہن بن چکا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ سترہ رکنی بینچ نے این آراو کا فیصلہ دیا،تعصب کے نکتے کواس قدر بڑھایا گیا تومقدمے کی سماعت نہیں ہو سکے گی جس پر اعتزازاحسن نے موقف اختیار کیا کہ معاملہ پسند یا نا پسند کا نہیں، یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی جج متعصب ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت میں اپنی گزارشات پیش کی ہیں، ججوں پر عدم اعتماد کی دلیل نہیں دی۔ اعتزاز احسن کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ صدارتی استثنٰی کی بنا پر فی الحال عدالتی حکم پرعملدرآمد ممکن نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ صدر کے عہدے سے ہٹنے کے بعد ان کے خلاف سول یا فوجداری کارروائی کی جاسکتی ہے، کل کوئی ہمارے چيف جسٹس اور آرمی چيف کو بھی طلب کرلےگا، صدر کے معاملے ميں قومی وقار دکھاياجائے۔مقدمہ کی سماعت کل تک کے لئے ملتوی کردی گئی ہے۔ سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق توہین عدالت کا ازخود نوٹس لینے والے جج مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتےاور اپنے دلائل میں انہوں نے عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان کا کسی غیرملکی مجسٹریٹ کے سامنے سرنگوں نہیں کیاجانا چاہئے۔