پنجاب میں سیلاب سےجانی اور مالی نقصان جو ہوا سو ہوا ، اب کھڑےپانی سےبیماریاں اور وبائی امراض بھی پھیلنا شروع ہوگئے ہیں

سیلاب سے پنجاب کے پانچ اضلاع لیہ،بھکر،راجن پور،ڈیرہ غازی خان اورمظفرگڑھ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ کھڑے پانی میں جراثیموں کی افزائش کےباعث یہ پانی جلدی امراض، بخار،ہیضہ اورخسرہ سمیت مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن رہا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ان اضلاع میں چوراسی ہزار سے زائد مریض ہسپتال پہنچے جن میں خسرہ کے نوہزارنوسواٹھاون مریض بھی شامل ہیں۔لیہ ،راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع میں سب سے زیادہ مریض رپورٹ رپورٹ ہوئے جن کی تعداد بالترتیب اکیس ،سولہ اور چوبیس ہزار ہے۔ ضلع مظفر گڑھ سےمختلف بیماریوں میں مبتلا بیس ہزار مریض رپورٹ ہوئے۔کھڑے پانی کے باعث پنجاب کے پانچ اضلاع میں جلدی امراض میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد بھی کچھ کم نہیں،سیلابی علاقوں سےساڑھےسترہ ہزار جلدی امراض کے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ صرف لیہ میں انکی تعداد چھ ہزار ایک سوہے۔مختلف انفیکشنز کے باعث انہی پانچوں اضلاع میں آٹھ ہزار ایک سو مریضوں کو بخار کی شکایت ہوئی جن کا علاج جاری ہے۔
دریائےسندھ کا سیلابی ریلا ٹھٹھہ کےراستےسمندرمیں گر رہا ہے۔ سیلاب سندھ اورپنجاب میں جہاں سےگزرا تباہی کے نشان چھوڑ گیا۔
دریائےسندھ میں ٹھٹھہ کےمقام پر ساڑھےپانچ لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا گزر رہا۔جس سے دریا سےملحقہ کئی بستیاں پانی میں گھرگئی ہیں۔ سیلابی ریلا کچی بستیوں کو نقصان پہنچاتا ہوا سمندرمیں گررہا ہے۔ادھر کشمور، سکھر،خیرپوراور گھوٹکی سمیت سندھ کےسیلاب سےمتاثرہ علاقوں میں اب بھی پانی موجود ہے۔سندھ میں متاثرین حفاظتی بندوں پر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔پنجاب میں بھی دریائے سندھ اوردریائے چناب کےسیلابی پانی نےہزاروں دیہاتوں کومتاثرکیا ۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع راجن پور،ڈیرہ غازی خان ، مظفر گڑھ اور لیہ کے سیلاب زدہ علاقوں سےسیلابی پانی کا نکاس نہ ہونے کےباعث متاثرین خیمہ بستیوں اور قومی شاہراہ کے کنارے پناہ لیے ہوئے ہیں۔
چترال میں سیلاب سےتباہ ہونے والی مرکزی لشٹ روڈ کی بحالی کا کام جاری ہے،،سڑک بند ہونے کےباعث ڈھائی لاکھ آبادی کا شہر سےرابطہ منقطع ہے
چترال کی مرکزی شاہراہ گرین لشٹ کےمقام پر چند روز قبل دریائی کٹاؤ کے باعث ہر قسم کے ٹریفک کیلئے بند ہوگئی تھی ۔ سٹرک بند ہونےسےسب ڈویژن مستوج کی ڈھائی لاکھ آبادی کا چترال سےایک بار پھر رابطہ منقطع ہوا اورمتبادل راستے سے بھی سفرکرنا ممکن نہیں رہا، ،مرکزی سڑک کے بلاک ہونے کے باعث ملک کے دیگر حصوں سےآنے والے امدادی قافلے بھی چترال کےاندرونی علاقوں میں جانے سے قاصر ہیں، گرین لشٹ کے متعلق انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سیلاب کی آمد سے پندرہ روز قبل ذمہ داران کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی تھی لیکن اس طرف توجہ نہ دی گئی۔مقامی لوگوں نےمطالبہ کیا کہ تباہ شدہ سڑک سے متصل زمین کے مالکان سے مذاکرات کرکے انہیں معاوضہ دیا جائے،ان کی زمین پر متبادل سڑک بنائی جائے تاکہ متاثرین کیلئےریلیف کا سامان پہنچ سکے۔