پاکستان نے امریکا کے مذہبی آزادی رپورٹ اور سیاسی مقاصد کے حامل دعوے کو مسترد کر دیا
پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے سالانہ مذہبی آزادی رپورٹ کے نتاظر میں اظہارکردہ یکطرفہ اور سیاسی مقاصد کے حامل دعوے کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے بدھ کو جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ رپورٹ واضح طور پر تعصبات کی مظہر ہے اور اس بلاجواز مشق میں شامل خود ساختہ جیوری کی ساکھ اور غیر جانبداری پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ایک کثیر المذہبی اور متنوع معاشرہ ہے جہاں مختلف عقائد اور طبقات کے لوگ مل جل کر رہ رہے ہیں۔ پاکستان کی مجموعی آبادی کے تقریباً 4 فیصد کا تعلق عیسائی، ہندو، بدھ مت اور سکھ مذاہب سے ہے۔ ترجمان نے کہاکہ اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک اور کسی امتیاز کے بغیر ان کے انسانی حقوق کو یقنی بنانا پاکستان کے آئین کا بنیادی اصول ہے۔ پارلیمنٹ میں اقلیتوں کے لئے خصوصی نشستیں مختص کی گئی ہیں تاکہ قانون سازی کے عمل میں ان کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں خدشات دور کرنے کے لئے انسانی حقوق کے بارے میں ایک فعال اور خود مختار قومی کمیشن کام کر رہا ہے۔ ترجمان نے کہاکہ ملک میں ہر حکومت نے اس امرکو ترجیح دی ہے کہ اقلیتی عقائد سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو جیسا کہ قانون اور آئین نے اس کی ضمانت دی ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اقلیتوں کی املاک اور عبادت گاہوں کے تحفظ کےلئے کئی تاریخی فیصلے دیئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 9 بنیادی انسانی حقوق معاہدوں میں سے 7 میں فریق ہونے کی حیثیت سے پاکستان بنیادی آزادیوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں تعمیلی رپورٹس پیش کررہا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کےلئے مسلمہ قانونی اور انتظامی نظام وضع کررکھے ہیں۔ پاکستان کو کسی اور ملک کی طرف سے اس بارے مشورے کی ضرورت نہیں کہ اپنی اقلیتوں کے حقوق کا کس طرح تحفظ کرنا ہے۔ ترجمان نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے دعویداروں نے خارجی غلبے اور بیرونی تسلط کے تحت اقلیتوں پر منظم ظلم و ستم جیسا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہے، پر اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ امریکا میں اسلام فوبیا میں تیزی سے اضافہ کے اسباب جاننے کے لئے خود کا دیانتدارانہ جائزہ بھی بروقت ہوگا۔