سی پیک کے منصوبے کے تحت اورنج لائن ٹرین کی پہلی آزمائش کا افتتاح
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے تحت پاکستان کی پہلی تیز رفتار اربن ٹرانزٹ ٹرین کی پہلی آزمائش کی گئی۔ پنجاب کے وزیر ٹرانسپورٹ جہانزیب خان کھچی نے اورنج لائن میٹرو ٹرین کی آزمائش کا افتتاح کیا جو قبل ازیں ملک کے مشرقی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں دو بار پہلے بھی جزوی طور پر کیا جا چکا ہے۔ وزیر ٹرانسپورٹ نے بتایا کہ یہ منصوبہ چین پاکستان دوستی کا مظہراور پاکستانی عوام کے لئے تحفہ ہے جو عالمی معیار کے مطابق اعلیٰ درجہ سفر کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبہ دھواں خارج کرنے والی ہزاروں گاڑیاں کم ہونے سے فضائی آلودگی کم کرنے میں بھی حکومت کی مدد کرے گا۔ مزید یہ کہ اس سروس کے روٹ کے ارد گرد معاشی سرگرمیوں کی لہر میں بھی اضافہ ہو گا۔ پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے جنرل منیجر عزیر شاہ کے مطابق سفری آزمائش ڈیرہ گوجراں سے علی ٹاؤن تک کل 25 کلومیٹر روٹ پر کی گئی۔ ٹرین سروس کے 24 سٹاپ اور 2 زیر زمین اسٹیشن سمیت 26 اسٹیشن ہیں۔ زیر زمین لائن اور اسٹیشن تاریخی مقامات کے تحفظ کے لئے تعمیر کئے گئے ہیں جہاں سالانہ ہزاروں مقامی اور غیر ملکی سیاح رخ کرتے ہیں۔ منصوبہ کے لئے فنڈ ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنہ نے فراہم کئے ہیں جو سی پیک کا حصہ ہے اور اسے چینی ریلوے کارپوریشن اور چائنہ نارتھ انڈسٹریز کارپوریشن نے مشترکہ طور پر تعمیر کیا ہے۔ افتتاحی تقریب کے دوران انہوں نے کہا کہ کل 27 انرجی سیونگ الیکٹرک ٹرینز ہیں جن میں سے ہر ایک 5 مکمل ائیر کنڈیشن ویگنوں پر مشتمل ہے۔ جب یہ 2020 کی پہلی ششماہی میں مکمل آپریشنل ہو گی تو روزانہ 2 لاکھ 50 ہزار مسافروں کو 80 کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار کے ساتھ آرام دہ، محفوظ اور سستی سفری سہولتیں فراہم کرے گی۔ جنرل منیجر نے کہا کہ او ایل ایم ٹی لاہور میٹرو ماسٹر پلان کی تین ریل لائنز میں سے پہلی ہے۔ توقع ہے کہ اس سے 2025 تک روزانہ 5 لاکھ افراد سفر کریں گے۔اورنج لائن پروجیکٹ کے ایگزیکٹو ڈپٹی جنرل منیجر وانگ ین لن نے اربن ریل ٹرانزٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ بڑے جدید شہروں میں بہت موثر اور ماحول دوست ہے۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ او ایل ایم ٹی طرز زندگی تبدیل اورلاہور میں ترقی کے نئے تصور کو اجاگر کرے گی۔ انہوں نے سامعین کو بتایا کہ اس منصوبہ میں جدید چینی ٹیکنالوجی، معیار، ڈیزائن اور آلات اختیار کئے گئے ہیں جو دیگر ممالک کے ایسے ہی منصوبوں کے مقابلے میں کم لاگت ہیں۔