سپریم کورٹ نے اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت چوبیس فروری تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کردیئے
آئین میں اکیسویں ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔ سماعت کے موقع پر خیبر پختونخواہ کے علاوہ کسی نے جواب جمع نہیں کرایااٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ جواب جمع کرانے کیلئے مزید وقت چاہئے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پہلے ہی کافی وقت دے چکے ہیں، اٹانی جنرل نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیخلاف مزید درخواستیں بھی آئی ہیں، سب کا ایک ساتھ جواب دینا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمام درخواستوں میں ایک جیسا موقف اختیار کیا گیا ہے، لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اس کیس کے حقائق مختلف ہیں، انیسویں ترمیم کے ذریعے عدالت کے عبوری حکم پر عمل ہو چکا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اٹھارویں ترمیم کیخلاف درخواستوں میں بھی بنیادی ڈھانچے کی بات کی گئی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہے بھی کہ نہیں ۔ اگر ہے تو کیا پارلیمنٹ اس میں ترمیم کر سکتی ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ چاہتے ہیں اٹھارویں اور اکیسویں ترمیم کا معاملہ ایک ساتھ نمٹا دیں،۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو اکیسویں ترمیم پرجواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔سپریم کورٹ کے باہر میڈٰیا سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل عاصمہ جہانگیر،شفقت چوہان اورحامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پربھروسہ ہے اوروہ عوام کے مفاد میں فیصلہ کرے گی،انہوں نے کہا کہ دستوربنانا پارلیمنٹ کاکام ہے جبکہ اس کی تشریح کرنا سپریم کورٹ کاکام ہےعاصمہ جہانگیر کاکہنا تھا کہ آئین کابنیادی ڈھانچہ نہیں ہے اس پربحث کی جائے سٹ:عاصمہ جہانگیر