قومی اسمبلی اجلاس:مختلف سوالات پر حکومتی اراکین کے جوابات
قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں چھوٹے ڈیموں کیلئے 52ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس پر ابھی تک 13ارب روپے خرچ کئے جاچکے ہیں اور رواں سال کیلئے 5.9ارب روپے مختص کئے گئے ہیں پمز میں مختلف شعبوںمیں 86وینٹی لیٹر موجود ہیں ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے مزید ڈاکٹر بھرتی کئے گئے ہیں حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز کیلئے 10ارب روپے کا پیکج دیا ہے ، سٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلایا جائے گا 344 ایکٹر سٹیل ملز کی زمین پر چائنہ کٹنگ کی گئی جس میں سو ایکڑ زمین واگزار کرالی گئی ہے 30جنوری 2020تک مہندڈیم پاور پراجیکٹ پر 1.5فیصد تعمیراتی کام مکمل ہوگیا ہے جب تک حکومت کپاس کے کاشتکاروں کو سپورٹ نہیں کرے گی تب تک وہ گنے کی بجائے کپاس کی کاشت کو ترجیح نہیں دینگے ، کپاس کی کاشت کی کمی کے معاملے کو متعلقہ کمیٹی کو بھجوادیا جائے ، ان خیالات کا اظہار پارلیمانی امور کے وزیر علی محمد خان ، پارلیمانی سیکرٹری برائے آبی وسائل صالح محمد ، پارلیمانی سیکرٹری برائے انڈسٹری عالیہ حمزہ ملک اور پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت نوشین حامد نے قومی اسمبلی میں مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا وقفہ سوالات کے دوران شیخ روحیل اصغر کے سوال پر پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر نوشین حامد نے ایوان کو بتایا کہ اس وقت زندگی بچانے والی ادویات ہسپتالوں میں موجود ہیں۔کینسر کی ادویات مہنگی ہونے کی وجہ سے لائف سیونگ ڈرگز کی فہرست میں شامل نہیں ہوتیں۔ تاہم پاکستان بیت المال اور دیگر سکیموں کے ذریعے مستحق مریضوں کو کینسر کی ادویات فراہم کرنے کا طریقہ کار موجود ہے۔ڈاکٹر شہناز بلوچ کے ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ضروری ادویات کی فہرست ہر ملک کی مختلف ہوتی ہے۔ پاکستان میں ضروری ادویات کی جو فہرست مرتب کی گئی ہے اس میں عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ مہیش کمار ملانی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈینگی سے بچاﺅ کے لئے مارچ سے اقدامات کا سلسلہ شروع ہوگا کیونکہ اسی مہینے میں لاروا بنتے ہیں۔ سی ڈی اے اور دیگر ادارے نگرانی کا عمل شروع کریں گے اور کوشش ہوگی کہ ابتدائی مرحلے میں لاروا کو تلف کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ پولیو پاکستان کا ایک بڑا ایشو ہے۔ پولیو کے حوالے سے پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لیا جارہا ہے کیونکہ گزشتہ پالیسیوں کی وجہ سے مرض مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔نئی پالیسیوں میں تمام بچوں کو ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ انکاری والدین کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ سینی ٹیشن اور صاف پانی کو پولیو مہم کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ صحت انصاف کارڈ میں صوبائی حکومتوں کو اپنا حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ اس وقت پنجاب خیبرپختونخوا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں صحت انصاف کارڈ کے حوالے سے تعاون کر رہی ہیں۔سندھ میں 36 لاکھ خاندان غربت کی لکیر سے نیچے ہیں جنہیں کارڈ فراہم کرنا ضروری ہے۔ سندھ حکومت اس حوالے سے تعاون نہیں کر رہی۔ صرف تھرپارکر میں وزیراعظم کی ہدایت پر تمام خاندانوں کو صحت انصاف کارڈ فراہم کئے گئے ہیں۔ وقفہ سوالات کے دوران شازیہ مری اور دیگر ارکان کے سوالوں کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری عالیہ حمزہ نے ایوان کو بتایا کہ سرکاری کاروباری اداروں کو منافع بخش بنانے کے لئے بعض اداروں کو آپس میں ضم کیا جارہا ہے۔پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کے لئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان سٹیل ملز نجکاری کی فعال فہرست میں آچکا ہے۔ اس کے لئے مشاورتی بورڈ بن گیا ہے۔پاکستان سٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر چلانے کے لئے 13 کمپنیوں نے اظہار دلچسپی کے عمل میں حصہ لیا جن میں بیشتر غیر ملکی کمپنیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔یوٹیلٹی سٹورز کے لئے اب تک 17 ارب روپے کا پیکج دیا جاچکا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کی سیل میں نمایاں اضافہ ہوا۔ علی گوہر کے ضمنی سوال پر انہوں نے بتایا کہ وزارت صنعت و پیداوار کار ساز کمپنیوں کی پرائس میکنزم کو کنٹرول کرنے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی۔ وزارت صرف مسابقت کا ماحول پیدا کرتی ہے۔ وزارت صنعت و پیداوار کے اقدامات کی بدولت اس سیکٹر میں 17 کمپنیاں آئی ہیں اور اس شعبے میں ایک ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری آرہی ہے۔حکومت کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان گاڑیاں برآمد کرنے کے بھی قابل ہو سکے گا۔ گاڑیوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کے ساتھ بھی مفاہمت کی دستاویز پر دستخط ہو چکے ہیں۔ رائے محمد مرتضی اقبال کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان سٹیل ملز کی سو فیصد نجاری نہیں ہوگی بلکہ اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر منتقل کیا جائے گا۔سٹیل ملز کے ساتھ بہت سارے مسائل تھے۔ 2013 سے ابھی تک ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی بھی نہیں ہو سکی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا کیس بھی چل رہا ہے اور بالآخر اس کا بوجھ بھی حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ جون 2020 تک سٹیل ملز کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کا طریقہ کار طے ہو چکا ہے۔ سٹیل ملز کی 334 ایکڑ اراضی چائنہ کٹنگ کے ذریعے قبضے میں لی گئی تھی جن میں سے سو ایکڑ اراضی واپس کی گئی ہے۔ باقی اراضی کی واپسی کے لئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ حکومت سٹیل ملز کو کسی بھی طریقے سے چلانا چاہتی ہے۔ پارلیمانی امور کے وزیر علی محمد خان نے کہا کہ نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے زیر نگرانی سندھ اور ملتان میں کپاس کے پیج کی تیاری کیلئے پروگرام شروع کئے جارہے ہیں اب 9.4 ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار کم سے کی ہے کسانوں کو جدید اقسام کے بیج دیتے جارہے ہیں کپاس کے علاقوں میں گنا کاشت کرکے ملک کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے ایمرجنسی پروگرام کے تحت کوشش کی جارہی ہے کہ کپاس کے علاقوں میں گنے کی کاشت کو روکا جائے گا جب تک کسانوں کو حکومت کی طرف سے مناسب سپورٹ نہیں ملے گی وہ دوبارہ کپاس کی کاشت کیلئے تیار نہیں ہوں گے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ملک میں کپاس کی کاشت اور پیداوار میں کمی کے معاملے کو متعلقہ کمیٹی کو بھجوادیا پارلیمانی سیکرٹری برائے آبی وسائل صالح محمد نے شیخ روحیل اصغر کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری آبی وسائل صالح محمد خان نے کہا کہ ہمارے ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں 237 فیصد زائد ہے۔پانی کی موجودہ مقدار کے ذریعے ہم اپنی پانی کی ضروریات بڑی حد تک پوری کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 70 سالوں سے ہمارے پاس ذخائر ہی نہیں ہیں جہاں پانی کا ذخیرہ کر سکیں۔ ہم مہمند اور داسو ڈیموں پر کام کر رہے ہیں۔