مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے بڑی خوشخبری سنا دی۔

مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے اعلان کیا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر چینی کی قیمت 68 روپے اور کھانے کے تیل کی قیمت 160 روپے، آٹے کے تھیلے کی قیمت 800 روپے برقرار رکھی جائے گی، پہلی حکومت ہے جس نے کابینہ، جرنیلوں اور سیکرٹریز کی تنخواہوں کو منجمد کیا۔ آئندہ دو ماہ میں قیمتیں مزید کم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اپنے ادوار میں آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینے والی جماعتوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آئی ایم ایف پر تنقید کریں۔ آئی ایم ایف بورڈ نے رپورٹ جاری کر دی ہے کہ پاکستان نے آرام سے تمام اہداف حاصل کر لئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ مشیر خزانہ نے طویل عرصے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اور سابقہ حکومتوں کی ناکام معاشی پالیسیوں، موجودہ حکومت کے معاشی اہداف، مہنگائی کی وجوہات سے ایوان کو آگاہ کیا۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کا قیام کسی معجزے سے کم نہ تھا اس کے لئے عظیم قربانیاں دی گئیں۔ سوچنا یہ ہے کہ اچھائی کے ساتھ ملک کو کیسے آگے لے جانا ہے۔ دنیا سبق سے سیکھتی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ کئی ترقی پذیر ممالک ترقیاتی ممالک کی صف میں شامل ہو گئے۔ ہم کیوں پیچھے رہ گئے۔ تلخ حقائق ہیں۔ کسی ایک دور حکومت پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں کی جا سکتی۔ تاہم ہمارا ذہن واضح ہونا چاہئے کہ ہماری ناکامیوں کی تاریخ کیوں ہے۔ میں 20-21 ممالک کو ایڈوائز دے چکا ہوں۔ سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں 72 سالوں میں ایک وزیراعظم نے بھی اپنی آئینی مدت کو مکمل نہیں کیا۔ لوگ اگر امیر اور ملک ترقی پذیر ہو یا لوگ باصلاحیت، ہنرمند ہوں اور ملک ترقی نہ کرے تو اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے عوام کی ضروریات کا کیوں نہ خیال کر سکے۔ برآمدات اور سرمایہ کاری کے حوالے سے کیوں اہداف حاصل نہ کر سکے۔ اس کے لئے دنیا نے اقدامات کئے۔ ماحول بنایا، سرمایہ کاری کے لئے ترغیبات دیں۔ سوال یہ ہے کہ 72 سالوں میں محاصل جمع کرنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے اور دوسرے ممالک پر انحصار کرتے رہے۔ ایسے ادوار آئے کہ گروتھ میں تیزی آئی مگر یہ گروتھ تین چار سال سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔1960ء کی گروتھ چار سال، 1980ء کی دہائی کی گروتھ بھی چند سال اور 2000ء کی گروتھ بھی پائیدار ثابت نہیں ہوئی۔ پاکستان میں مسلسل گروتھ ایک بڑا چیلنج ہے۔ وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت ہے تب ہی ہم مسئلے کو حل کر سکتے ہیں اپنے لوگوں کی زندگی کو بدل سکتے ہیں۔ دنیا کی ترقی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری تاریخ میں ناکامیاں ہیں اور جو راہ بھی اختیار کی گئی مسئلے کا حل نہ نکلا۔ ضروری ہے کہ مسئلے پر بردباری اور سنجیدگی سے غور کریں۔ اچھی تقریر اور اپنے لوگوں سے تالیاں بجوانا مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ماضی کی بات زیادہ نہیں ہونی چاہئے مگر ماضی، حال مستقبل جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسی نہ کسی مرحلے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بھاری قرض ہمارے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ دو سالوں میں پانچ ہزار ارب روپے کا قرضہ واپس کرنا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ معاملات خطرناک سطح تک پہنچ گئے تھے۔ برآمدات صفر فیصد ہو گئی تھیں اور پاکستان کے قرضے 95 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ ادائیگی کا کسی نے نہیں سوچا۔ ایسا نظام چل رہا تھا کہ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر نیچے رکھا گیا۔ درآمدات کی بھرمار تھی یہاں تک کہ ٹوتھ پیسٹ اور پنکھے بھی باہر سے منگوائے جا رہے تھے جس کی وجہ سے پاکستان کے برآمدات کنندگان مایوس ہو گئے۔ بھاری گردشی قرضہ تھا۔ کمپنیوں کی بل کی وصولی کی صلاحیت کم ہو کر رہ گئی تھی۔ بحران دیوار پر نظر آ رہا تھا۔ کوئی قرض دینے کو تیار نہیں تھا۔ ایسے بحران میں داخل ہو چکے تھے کہ دیوالیہ ہونے والا تھا۔ ڈالرز کے ذخائر ختم ہو چکے تھے۔ سب سے پہلے یہ سوچا کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جائے کیونکہ یہ سب سے زیادہ عوام کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔ وزیراعظم کے کارخانے نہیں ہیں کہ ان کا نقصان ہوتا۔ کسی کے ذاتی نقصان فائدے کا مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ عوام اور ووٹرز ہیں۔ بھولے ہوئے لوگ ہیں۔ یہ نمبرز کا کھیل نہیں ہے بلکہ انسانوں کی زندگی وابستہ ہے۔ بحیثیت ریاست مسائل کو دیکھنا ہو گا۔ تنقید کرنا آسان ہے۔ حقائق اجاگر کرنے کا مقصد چیلنجز کا ادراک ہے۔ اگر ہم نے اقدامات نہ کئے تو ہم بھی ناکام ہو جائیں گے۔ غیرمعمولی فرق کو دور کرنا ہے۔ کچھ چیزوں کو اب بھی خطرہ ہے۔ زراعت کے حوالے سے بھی خطرات ہیں۔ زرعی پیداوار میں اضافے کے لئے بھی گزشتہ پانچ سالوں میں بھی کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ زرعی گروتھ زیرو رہی۔ بجلی کا شعبہ تنزلی کا شکار تھا اور مسلسل غفلت کے نتیجے میں ناکام ثابت ہوئے۔ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے اس میں دوست ممالک نے بھی مدد کی۔ آٹھ ارب ڈالر کی دو طرفہ معاونت ملی۔ تیل کے حوالے سے موخر ادائیگیوں کی سہولت ملی۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے جذبات کا اظہار ہوا۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے یہ نہیں ہو سکتا کہ میں جذباتی ہو جاؤں۔ 2008ء میں یہ آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ 2013ء کی حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی۔ اپوزیشن کی ان بڑی جماعتوں کو زیب نہیں دیتا کہ جو کچھ وہ خود کرتی رہی اب اس حوالے سے تنقید کرے۔ یہ قومی مسئلہ ہے۔ کون سا ملک جو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتا۔ کوئی خوشی سے نہیں جاتا حالات مجبور کرتے ہیں۔ اقتصادی بحران آئی ایم ایف کے پاس جانے کی وجہ بنا۔ چھ ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے اور پہلی حکومت ہے جس نے آئی ایم ایف ڈیل کے حوالے سے آسان شرائط پر معاہدہ کیا ہے۔ یہ بہت مہنگی ڈیل نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کے نتیجے میں ساری دنیا کو پاکستان کے حوالے سے اعتماد ملا ہے۔ وہ پاکستان کی معیشت میں شامل ہونا چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے اداروں کے ساتھ شراکت داری کر رہا ہے۔ صرف آئی ایم ایف نہیں بلکہ ورڈبینک، ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنے تعاون کو بڑھایا ہے۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے ہم پر جو تبصرہ کیا گیا اسے سن کر افسوس ہوا یہ تک کہا گیا کہ مذاکرات کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے آئی ایم ایف کے نمائندے بیٹھے تھے اور ایسا تالیاں بجوانے کے لئے کیا گیا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانی مدد کریں، یہاں آ جائیں اور جب وہ آ جائیں تو کہیں کہ یہ محب وطن نہیں ہیں دکھ دینے والی بات نہ کریں۔ ہم جدوجہد میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں۔ پہلی حکومت ہے جس نے فوج کے بجٹ کو منجمد کرنے کا بڑا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے قمر جاوید باجوہ کی حکومت کو مکمل مدد حاصل رہی۔ چالیس ارب روپے کے حکومتی اخراجات کم کئے۔ وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر کے خرچے کم کئے۔ کابینہ کی تنخواہیں، جرنیلوں، سیکرٹریز کی تنخواہوں کو منجمد کیا۔ بہت سی حکومتیں رہیں کوئی ایسا فیصلہ نہ کر سکا۔ آمدنی کو بڑھایا ہے یقینا 2019-20ء کا سخت بجٹ بنایا گیا۔ پہلے سات ماہ میں 2100 ارب روپے کے محاصل حاصل کر لئے گئے ہیں۔ 2200 ارب روپے کا ہدف تھا، سختی کی گئی ہے مگر پہلی حکومت ہے جس نے ڈیڑھ سال میں سٹیٹ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا۔ سٹیٹ بینک سے ادھار لینے کی شرح صفر ہے اسی وجہ سے افراط زر کو قابل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا مالیاتی نظام ہونا چاہئے کہ لوگوں کو فائدہ ملے ہماری یہ تاریخی ناکامی تھی کہ برآمدکنندگان کو سہولیات نہ دے سکے۔ ہم نے نہ صرف برآمدکنندگان کے لئے اقدامات کئے بلکہ کمزور ترین طبقات کے لئے پاکستان کے سوشل سیفٹی نیٹ کو مضبوط کیا۔ اس حوالے سے سو ارب روپے کو بڑھا کر 192 ارب روپے کر دیا گیا۔ نوجوانوں کو اپیل کرتا ہوں کہ وہ کامیاب نوجوان پروگرام سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کار پاکستان کی معیشت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آ چکی ہے۔ ایف ڈی آئی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان آنے والے سیاحوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔ دنیا بھر کے مالیاتی ادارے کسی جماعت کے ارکان نہیں ہیں ان کو خریدا نہیں جا سکتا کہ وہ پاکستان کی معیشت کے بارے میں اس قسم کی اچھی رپورٹس دیں۔ دقتمیں اب بھی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ باہر سے آنے والی چیزیں اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمتیں نہ بڑھانا ہے۔ مہنگے قرضے لئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 72 فیصد بجلی سبسڈی پر دے رہی ہے۔ بجلی چوری کو روکا ہے اور گردشی قرضہ 38 ارب روپے سے کم کر کے 12 ارب روپے پر لے آئے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی موسمی وجوہ بھی ہیں۔ بھارت سے کھانے پینے کی چیزیں نہیں آئیں۔ انتظامی معاملات بھی ہیں۔ وفاق صوبوں اور اضلاع میں بھی قریبی رابطوں کے میکانزم کی ضرورت ہے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ صنعت میں بھی بہتری آئی ہے ایک دو ماہ میں قیمتوں میں مزید کمی آئے گی۔ گاڑیوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ دسمبر 2020ء تک خسارے کو آٹھ ارب ڈالر تک لے آئیں گے۔ مالیاتی خسارہ بھی 2.7 سے کم ہو کر 2.3 فیصد تک آ چکا ہے۔ سترہ فیصد ٹیکسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ معاشی استحکام آیا ہے۔ لگتا ہے کہ ڈالر کی قیمت کی سطح مستحکم رہے گی۔ بزنس مین اطمینان سے کاروباری فیصلے کریں۔ بیرون ملک سے آنے والے اطمینان سے آ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کی معاشی کارکردگی کی رپورٹ جاری کر دی ہے کہ آرام سے اہداف پورے کر لئے گئے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ کو دنیا کی بہترین مارکیٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے حوالے سے پاکستان دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کی معاشی کارکردگی سے متاثر ہو کر خصوصی پیکج لا رہا ہے۔ مشیر خزانہ نے اعلان کیا کہ یوٹیلٹی سٹورز پر چینی کی قیمت 68 روپے اور کھانے کے تیل کی قیمت 160 روپے برقرار رہے گی۔ اسی طرح آٹے کے تھیلے کی قیمت 800 روپے، دالیں 135 روپے، چاول کی کم از کم 110 روپے قیمت ہو گی۔ رمضان المبارک میں 19 آئٹم مارکیٹ سے کم قیمت پر دستیاب ہوں گے۔ 7 ارب روپے کی یوٹیلٹی سٹورز نے سیل کی ہے اور پچاس لاکھ لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کی انتظامیہ کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ ایک کروڑ خاندانوں کی رسائی کو یقینی بنایا جائے اور چند ماہ میں دو ہزار یوٹیلٹی سٹورز میں اضافہ کیا جائے گا۔ کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ کمزور طبقات کو راشن کارڈز دیئے جائیں گے اور انہیں پچیس فیصد کم قیمت پر یوٹیلٹی سٹورز پر اشیاء دستیاب ہوں گی۔