اہداف کے حصول کیلئے کچھ لوگوں کو ناراض کرنا ہوا تو تیار ہیں۔ مشیر خزانہ
مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا ہےکہ معاشی اہداف کے حصول کے لیے کچھ لوگوں کو ناراض کرنا ہوا تو تیار ہیں۔اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ معیشت مشکل دور سے گزررہی ہے، حکومت کو پہلے دن سے ہی مشکل حالات کا سامنا رہا، بجٹ کے اندر تین سے چار چیزوں کو ہدف رکھنے کی کوشش کی ہے، کوشش کررہے ہیں پھر بھی ہم پر تنقید کی جارہی ہے۔حفیظ شیخ نے کہا کہ پاکستان کے امیر لوگوں کو ملک سے سچا ہونا ہوگا، خطے کے امیر لوگ پاکستان کے امیر لوگوں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہمارے ملک میں امیر طبقہ کم ٹیکس دیتا ہے، ہمارے یہاں ٹیکس کی شرح 11، 12 فیصد ہے جو دنیا کی کم ترین شرح میں سے ایک ہیں۔عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہمارے خطے کے دیگر ممالک کے امیر لوگ ہم سے کافی زیادہ ٹیکس دیتے ہیں، لہذا پاکستان میں یہ قابل قبول بات نہیں اور اگر ٹیکس کی وصولی کے لیے کچھ لوگوں کو ناراض کرنا پڑے گا تو ہم تیار ہیں۔مشیر خزانہ نے بتایا کہ موجودہ حکومت سے پہلے 100 ارب ڈالر قرض لیے گئے، ماضی کے قرضوں کا سود دینے کے لیے قرض لے رہے ہیں، 2900 ارب ماضی کے قرضوں کی ادائیگی پر سود کے لیے رکھے جا رہے ہیں، مسلح افواج کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، مسلح افواج نے پچھلے سال کا 1150 ارب کا بجٹ اسی سطح پر منجمد کیا۔مشیر خزانہ نے دفاعی بجٹ سے متعلق بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلح افواج نے بجٹ کو گزشتہ سال کی سطح پر قبول کیا اور اس میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، یہ دنیا اور پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک بہت اچھا پیغام ہے کہ کس طرح حکومت کے اخراجات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔حکومت کی سادگی مہم کا حوالہ دیتے ہونے انہوں نے کہا کہ پہلے حکومت نے اپنے اخراجات کو واضح طور پر کم کرکے لوگوں کے لیے مثال قائم کی۔ ہم نے اپنے اخراجات کم کرنے ہیں اور عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم اخراجات کم کرنے میں سب سے آگے ہوں گے۔عبدالحفیظ شیخ نے مزید کہا کہ کسی اور سے قربانی مانگنے سے قبل خود قربانی دینا ہوگی، اس کے لیے ہم نے کفایت شعاری دکھائی اور سول حکومت کے اخراجات کو واضح طور پر کم کرکے 468 ارب سے 431 ارب کردیا ہے اور مہنگائی کی وجہ سے بڑھنے والی قیمتوں کے باوجود ہم نے اسے کم کیا۔مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر معاشی صورتحال ایسی ہونے کے باوجود ہم نے چند چیزوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں 3، 4 ایسے شعبے ہیں یہاں اخراجات کم کرنے کے بجائے بڑھائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پہلا یہ کہ مشکل سے گزرنے کے باوجود کمزور، غریب طبقے کے لوگوں تک پہنچنا چاہیے اور انہیں یہ احساس نہیں دلانا چاہیے کہ ہم انہیں بلا چکے ہیں اور اسی کے لیے ہم نے سماجی تحفظ کے موجودہ بجٹ کو 100 ارب سے بڑھا کر 191 ارب روپے تک لے گئے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بتایا کہ ہم نے بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی صورت میں کمزور طبقے کو تحفظ دینے کا فیصلہ کیا اور 300 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے سبسڈی رکھی، بجٹ میں اس مد میں 216 ارب روپے رکھے جارہے ہیں تاکہ چھوٹے صارفین کو بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی تکلیف سے بچایا جائے۔مشیر خزانہ نے بتایا کہ برآمد کنندگان کو برآمدات بڑھانے کے لیے نئے مالی سال کے بجٹ میں مراعات دی گئیں، جبکہ حکومت کی جانب سے اندرونی خسارے پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔عبدالحفیظ شیخ نے ڈالر کی قیمت سے متعلق بتایا کہ برآمدات میں واضح کمی آئی جس سے ڈالر کی قیمت بڑھی۔مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کل موجودہ حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا، جس میں 3 سے 4 اہم چیزوں پر توجہ دی گئی، سب سے پہلا بیرونی قرضوں پر منظم حد تک قابو پانا ہے اور اس کے لیے 9 ارب 2 کروڑ ڈالر موبیلائزڈ کیے گئے، پیٹرولیم مصنوعات کے لیے تاخیری ادائیگیوں کا انتظام کیا گیا۔اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ درآمدات پر اس طرح کی ڈیوٹی لگائی گئی اور برآمدی شعبے کو مراعات دی گئیں۔انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں دوسری توجہ مالی خسارے پر تھی کہ یعنی آمدنی اور اخراجات میں توازن اور اس کے لیے ریونیو کا ہدف چیلنجنگ بنایا ہے۔مشیر خزانہ نے بتایا کہ ماضی میں فائلر اور نان فائلر کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت اقتدار میں آئی تو 31 ہزار ارب کا قرضہ ورثے میں ملا، ڈالر میں لیے گئے قرض ڈالر میں ہی واپس کیے جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ تیل کی عالمی قیمتیں بڑھنے پر چھوٹے صارفین کے لیے 216 ارب روپے رکھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 45 دن میں کوئی شخص فائلر نہ بنا تواس کے ذمے ٹیکس کی اطلاع پہنچا دی جائے گی، نان فائلر نے20 لاکھ کی گاڑی خریدی تو آمدنی کا ذریعہ پوچھا جائے گا۔عبدالحفیظ شیخ نے مزید کہا کہ جو خام مال پاکستان میں نہیں پیدا ہوتا اس پر کسٹم ڈیوٹی صفر کر دی ہے، برآمد کنندگان پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ نان فائلر اور فائلر میں فرق ختم کر رہے ہیں، یہ سسٹم ختم کیا جا رہا ہے، برآمدکنندگان پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔فنانس بل میں نان فائلرز کو غیر منقولہ جائیداد، گاڑی کی خرید پر کوئی چھوٹ نہیں دی گئی