قومی اسمبلی کا اجلاس ، مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کردیا گیا

قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن ارکان نے بانی پی ٹی آئی کی تصاویر لے کر ایوان میں احتجاج و شور شرابا شروع کر دیا، سپیکر قومی اسمبلی نے وزیر خزانہ کو بجٹ پیش کرنے کی اجازت دی۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کیلئے 18 ہزار 877 ارب حجم کا بجٹ پیش کر دیا، انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال ایف بی آر 12970 ارب روپے اکٹھے کرے گا جبکہ نان ٹیکس آمدن کی مد میں 4845 ارب روپے مختص کرنے کا تخمینہ ہے۔ آئندہ مالی سال قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کیلئے 9775 ارب روپے خرچ ہوں گے، پنشنز کیلئے 1014 ارب روپے، سبسڈیز کیلئے 1363 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، آئندہ مالی سال دفاع پر 2122 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ پیش کرنا میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے، مخلوط حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے،اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کچھ ہی عرصہ قبل معیشت کومشکل حالات کا سامنا تھا، افراط زر اس سطح پر پہنچ گیا تھا لوگ تیزی سےغربت کی طرف جا رہے تھے، آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر مزید مشکلات پیدا کر سکتی تھی، آئی ایم ایف پروگرام کے بعد غیریقینی صورتحال ختم ہوئی۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے، آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید کمی ہوگی، شرح سود میں کمی کا اعلان مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں کی تائید ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید متاثر ہوئی، پاکستان کو ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے، ان اصلاحات سے کم شرح نمو کے چکر سے باہر نکلا جا سکے گا، معیشت کو حکومت کے بجائے مارکیٹ کی بنیاد پر چلنے والی معیشت بنایا جائے گا، ہمیں وسیع پیمانے پر نجکاری اور ریگولیٹری اصلاحات کرنا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی کمپنیوں کو صرف اہم عوامی خدمات کیلئے رکھا جائے گا، پیداواری صلاحیت بہتر بنائی جائے گی، اندرون ملک اور بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، غریب عوام کو ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے گی، ملک بحرانی صورتحال سے نکل چکا ہے، یہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کا عندیہ ہے، ترقی کی رفتار کو تیز کر کے معاشی انحصاری کی منزل کو حاصل کریں گے۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم معاشی اصلاحات کی جانب گامزن ہیں، یہ اصلاحات کا وقت ہے، ملک میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے، ترقی کے سفر کا آغاز ہو چکا ہے جس کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، وزیراعظم شہباز شریف کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ قابل تحسین تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے غیرتنخواہ دار طبقے کی آمدن پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، کاروبار کی آمدن پر زیادہ سے زیادہ 45 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، تنخواہ دار طبقے کیلئے سلیبز میں کچھ ردوبدل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، انکم ٹیکس چھوٹ 6 لاکھ روپے کی آمدن پر برقرار رکھنے کی تجویز ہے، تنخواہ دار طبقے کے زیادہ سے زیادہ سلیبز کو برقرار رکھنے کی تجویز ہے۔ تنخواہوں، پنشن میں اضافہ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تںخواہوں میں 25 فیصد تک اضافے اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ ایک سے 16 گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد جبکہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کی تنخواہوں میں 22 فیصد اضافے کی تجویز ہے، اسی طرح ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 22 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ ملازمین کی کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے سے بڑھا کر 36 ہزار روپے کرنے کی تجویر ہے۔ آئی ٹی پارکس کی تعمیر کراچی میں آٹھ ارب روپے کی لاگت سے آئی ٹی پارک بنایا جائے گا جس کے لیے بجٹ میں رقم مختص کردی گئی، ٹیکنالوجی پارک اسلام آباد کیلیے گیارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے 20 ارب روپے کی تجویز ہے۔ نیشنل ڈیجیٹل کمیشن اور ڈیجیٹل پاکستان اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے ایک ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔