انقلابی شاعر حبیب جالب کو مداحوں سے بچھڑے چوبیس سال بیت گئے،
اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے،،جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم،،،،جبر و استبداد کے سامنے ڈٹ جانے والے حبیب جالب نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی بھر پور ترجمانی کی،،، جالب نے زندگی بھر جو کچھ لکھا، بے لاگ اور بے باک لکھا، نہ ظلم و ستم کو لطف و کرم سے تشبیہ دی اور نہ دکھ کو دوا لکھا،، حبیب جالب کی آنکھ نے جو دیکھا اوردل نے جو محسوس کیا اس کومن و عن اشعار میں ڈھال دیا،، جبر و استبداد کے سامنے مزاحمت کا ایک استعارہ حبیب جالب جب قلم اٹھاتا تو اقتدار کے ایوان لرز اٹھتے۔حبیب جالب شاعر عوام تھے ، جنہوں نے ہمیشہ آمریت اور غیر جمہوری قوتوں کے خلاف آواز بلند کی،،، حبیب جالب نے قلم سے ہمیشہ تیغ کا کام لیا، اسی جرم کی پاداش میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔۔۔صر صر کو صبا، ظلمت کو ضیا، بندے کو خدا کیا لکھنا،،، ضیا دور میں بھی جالب کا قلم آمریت کے مظالم کے باوجود چلتا رہا،،، بینظیر بھٹو دور کی لوٹ کھسوٹ کو اسی کے خاندان کے ناموں کو استعارے میں استعمال کر کے کمال کر دیا۔ دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے مقروض ہے دیس کا ہر بلاولپاؤں ننگے ہیں بینظیروں کےحبيب جالب درباروں سے صعوبتيں اور کچے گھروں سے چاہتيں سميٹتا 12مارچ 1993 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کی انقلابی شاعری کا پیدا کردہ ولولہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے۔۔۔