جمہوریت کے علمبردار انقلابی شاعر حبیب جالب کی 25 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
ہمارے ذہن پہ چھائے نہیں ، ہیں حرص کے سائے
جو ہم محسوس کرتے ہیں ، وہی تحریر کرتے ہیں
جالب نے زندگی بھر جو کچھ لکھا، بے لاگ اور بے باک لکھا، نہ ظلم و ستم کو لطف و کرم سے تشبیہ دی اور نہ دکھ کو دوا لکھا، حبیب جالب کی آنکھ نے جو دیکھا اوردل نے جو محسوس کیا اس کومن و عن اشعار میں ڈھال دیا، نتائج کی پرواہ کئے بغیر انہوں نے ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان کیا،
حبیب جالب نے قلم سے ہمیشہ تیغ کا کام لیا، اسی جرم کی پاداش میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں،،، قریباً ہر شعری مجموعہ ضبط کیا گیا لیکن اسے شہرت دوام ہی ملی،
حبیب جالب شاعر عوام تھے ، جنہوں نے ہمیشہ آمریت اور غیر جمہوری قوتوں کے خلاف آواز بلند کی اور ہمیشہ حق اور سچائی کی بات کی
انھوں نے جہاں اپنی بے باک شاعری سے اردو ادب کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا وہیں رومانوی شاعری کو جو اسلوب دیا اس میں جذبوں کی شدت نمایاں ہے، حبيب جالب درباروں سے صعوبتيں اور کچے گھروں سے چاہتيں سميٹتا 12مارچ 1993 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ اُن کی نظموں کے پانچ مجموعے ۔ برگ آوارہ ، سرمقتل ، عہد ستم ، ذکر بہتے خون کا اور گوشے میں قفس کے شائع ہو چکے ہیں