عالمی برادری ایران کے خلاف فیصلہ کن موقف اختیار کرے: شاہ سلمان
سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایران کے نیوکلیائی اور بیلسٹک میزائل تیار کرنے کے پروگراموں کو روکنے کے لیے عالمی برادری سے تہران کے خلاف فیصلہ کن موقف اختیار کرنے کی اپیل کی ہے۔جرمن ٹی وی کے مطابق سعودی عرب کے اعلی ترین مشاورتی ادارے، مجلس شوری، کے سالانہ اجلاس سے جمعرات کوخطاب کرتے ہوئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل تیار کرنے کے اس کے منصوبوں کو روکنے کے لیے 'فیصلہ کن موقف اختیار کرنا ضروری ہے۔شاہ سلمان نے کہا کہ ایرانی نظام خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ ایران کی طرف سے دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ تہران دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے، انتہا پسندی کو فروغ دینے اور مسلکی فسادات کو ہوا دینے کی سازشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔" سعودی عرب کے 84 سالہ شاہ سلمان نے کہا کہ ایران کی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو موثر اور فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ عالمی برادری ایران کے وسیع پیمانے پر تیار کردہ ہتھیاروں، اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام، خطے میں ایرانی مداخلت، دہشت گردی کی پشت پناہی اور عالمی امن کو تباہ کرنے کی سازشوں کا نوٹس لے۔"گزشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک کے ذریعہ خطاب کے بعد شاہ سلمان کی یہ پہلی عوامی تقریر تھی۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی انہوں نے ایران پر نکتہ چینی کی تھی۔سعودی فرماں روا کا مزید کہنا تھا کہ عرب خطہ اس وقت کئی بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ایران خطے میں اپنا سیاسی اور نظریاتی ایجنڈا مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔ بد قسمتی سے خطے کے بعض ممالک ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کی بے جا حمایت اور پڑوسی ہونے کے اصولوں کو پامال کر رہے ہیں۔شاہ سلمان نے ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے ذریعہ سعودی عرب کے اندر ڈرون اور بیلسٹک میزائلوں سے شہریوں کو نشانہ بنانے کے'قصدا اور عملا اقدامات کی بھی مذمت کی۔کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے شاہ سلمان نے کہا کہ کووڈ۔19کے اثرات کے باوجود سعودی عرب تیل کی عالمی سپلائی کو مستحکم رکھنے کے لیے کام کررہا ہے۔شاہ سلمان نے اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے منصفانہ حل پر بھی زور دیا اور کہا کہ اس معاملے پر سعودی عرب کے اصولی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے تاہم امریکا کی ثالثی میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے کے سلسلے میں ہونے والے معاہدوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔