کراچی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اورکرنٹ سے ہلاکتوں کا کیس: سپریم کورٹ کا کے الیکٹرک کی رپورٹ پرعدم اعتماد
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جس کمپنی نے کے الیکٹرک کو خریدا ہے اس کی جانچ پڑتال کی جائے،ہماری حکومت کا یہ حال ہے کہ دوسرے ملک میں گرفتار ملزم کو کمپنی دے رکھی ہے، پرسوں کے الیکٹرک کو بجلی بند نہ کرنے کا کہا تو کل آدھے کراچی میں بجلی بند کر دی ان کا دماغ ٹھیک ہے؟انہوں نے کہا کہ آدھے کراچی میں بجلی نہیں ہوتی، یہ کون ہوتے ہیں بجلی بند کرنے والے؟۔جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے شہر میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت کے الیکٹرک نے عدالتی حکم پر رپورٹ پیش کردی، چیف جسٹس گلزاراحمد نے رپورٹ پرعدم اعتماد کا اظہار کردیا۔چیئرمین نیپرا نے بھی مقدمات کا ریکارڈ پیش کردیا، چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ کے الیکٹرک نے ہرشوکاز اور کیس پر حکم امتناع لے رکھا ہے، گیس، فیول اور بجلی کی پیداوار تک ان کے سارے معاملات خراب ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ساری دنیا میں ریگولیٹرز کے معاملات عدالت میں نہیں جاتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی آرڈر کے بعد آدھے شہر میں بجلی بند کردی گئی، یہ کون ہیں بجلی بند کرنے والے، ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں، لوگ کرنٹ لگنے سے مررہے ہیں اور یہ 50،50پچاس ہزار کی ضمانت حاصل کرلیتے ہیں، ہائی کورٹ بیٹھی ہی اس کام کیلئے ہے، جاکر ضمانت لے لیتے ہیں، لوگوں کی زندگی کا معاملہ ہے، ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر کے الیکٹرک کو 20کروڑ جرمانہ کیا جائے تو دوسری بار شکایت نہ ہو، ان کو 50لاکھ جرمانہ کیا جاتا ہے جو یہ چند دن میں کما لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کے الیکٹرک کا مالک جیل میں بند ہے، ہماری حکومت کا یہ حال ہے کہ دوسرے ملک میں گرفتار ملزم کو کمپنی دے رکھی ہے، جیل میں جانا ان کیلئے کوئی مسئلہ ہی نہیں جیسے سیاستدان جیل بیٹھ کرمعاملات چلاتے ہیں، انہیں فرق اس وقت پڑتاہے جب پیسہ دینا پڑتا ہے، جیل میں تو انجوائے کرتے ہیں، ان کی جیب پر بات آئے تب جان جاتی ہے، ان پر بھاری جرمانے لگنے چاہئیں۔کے الیکٹرک کے وکیل نے کہا کہ جیل میں قید شخص کمپنی کا مالک نہیں بلکہ شیر ہولڈر ہے، یہ پبلک ہولڈنگ کمپنی ہے، جس کے ڈائریکٹر موجود ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ان کی اجارہ داری ہے جس کا خمیازہ کراچی والے بھگت رہے ہیں۔وکیل نے عدالت سے کہا کہ کے الیکٹرک کے خلاف پچھلے سال کارروائی ہوجاتی تو اس سال لوگ نہیں مرتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کو بجلی، پانی نہیں ملتا، رہنے کیلئے جگہ نہیں ملتی، بڑے لوگ مزے کر رہے ہیں، وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر آ جاتے ہیں، بیچارے لوگ دیکھتے ہیں، یہ تماشہ دیکھنے آئے ہیں، بند روم کو دیکھ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کے الیکٹرک کے وکیل سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ آپ نے آدھے شہر کی بجلی بند کررکھی ہے، جس کمپنی نے کے الیکٹرک کو خریدا ہے اس کی جانچ پڑتال کی جائے گی، کمپنی کے وسائل کیا ہیں، تجربہ کیا ہے، کے الیکٹرک کو کس طرح خریدا گیا، سب بتایا جائے، کے الیکٹرک کو آپریٹ کیسے کیا جاتا ہے، تمام تفصیلات سے اسلام آباد آکر ہمیں آگاہ کریں۔ عدالتِ عظمی نے کراچی میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے متعلق مزید سماعت اسلام آباد میں کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں تک کے لیے ملتوی کر دی ۔