رینٹل پاور کیس، ملک میں گیس موجود نہیں تو پھر رینٹل پاور پلانٹ لگانے کی اجازت کیوں دی، بجلی چاہے جہاں سے مرضی آئے لیکن معاہدے شفاف ہونے چاہییں۔ چیف جسٹس

رینٹل پاور ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دورکنی بینچ نے کی۔ وزارت پانی وبجلی کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے عدالت کوبتایا کہ ملک میں آئی پی پیز کے ستائیس منصوبے موجود ہیں جو چھ ہزار آٹھ سو ستر میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب آئی پی پیز میں صلاحیت موجود تھی تو پھر رینٹل پاور منصوبوں کی اجازت کیوں دی گئی؟گلف پاورپراجیکٹ کے علاوہ باقی تمام پراجیکٹس میں بے قاعدگیاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فیول ایڈجسمنٹ کی مد میں ایندھن کی قیمت مہنگی سے مہنگی ہو رہی ہے۔ ایسی صورت میں آئی پی پیز سے ہی مکمل بجلی حاصل کرنے کو ترجیح دینی چاہیے تھی۔ خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے پوری بجلی حاصل کر لی جائے تو بھی شارٹ فال ختم نہیں ہوگا ،یہ بات درست نہیں کہ ذاتی مفاد کے لیے بجلی کی کمی کا بہانہ بنایا گیا۔ جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رینٹل پاورکیس میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ آپ کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ بجلی جہاں سے مرضی لائیں لیکن معاہدے شفاف ہونے چاہئیں۔ جس کے جواب میں وکیل وزارت پانی و بجلی کا کہنا تھا کہ ایشیائی بینک کی رپورٹ میں غلطیوں کی نشاندہی کے تحفظات سے کابینہ کو آگاہ کیا گیا تھا اور کابینہ نے ہی اسے منظور کیاتھا۔ کیس کی مزید سماعت اب کل ہوگی۔