سپریم کورٹ کا علیمہ خان کو ایک ہفتے میں 2 کروڑ 94 لاکھ ایف بی آر کے پاس جمع کرانے کا حکم

سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان کوحکم دیا ہے کہ 2کروڑ 94 لاکھ روپے جرمانہ کی رقم ایک ہفتے میں ایف بی آر کے پاس جمع کرائیں،جبکہ ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ رقم جمع نہ کرانے پر علیمہ خان کی جائیداد ضبط کرلیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کا پیسہ لانچوں پر لاد کراور ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا گیا اور بعد میں واپس لایاگیاکسی نے کوئی پراپرٹی فروخت نہیں کی ایف آئی اے اور ایف بی آر معاملہ کی مکمل تحقیقات کریں۔ جمعرات کو پاکستانیوں کے بیرون ملک اکائونٹس سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، تو عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان عدالت میں پیش ہوئیں تو چیف جسٹس نے انہیں روسٹرم پر بلا لیا اور جائیداد سے متعلق استفسار کیا۔ علیمہ خان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 2008میں دبئی میں جائیداد 3لاکھ 70 ہزار ڈالرمیں خریدی، دبئی میں جائیداد خریدنے کیلئے 50 فیصد رقم قرض لی جبکہ 50فیصد خود اداکی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میری موکلہ پر 18ملین روپے کے واجبات ہیں۔ کمشنر ایف بی آر نے کہا ان کے ذمہ 2 کروڑ 94 لاکھ روپے کے واجبات ہیں، چیف جسٹس نے علیمہ خان کو ہدایت کی کہ وہ رقم جمع کراکے اپیل کا حق استعمال کرسکتی ہیں اگر فیصلہ ان کے حق میں آیا تو رقم واپس کردی جائیگی ۔ ادھر چیف جسٹس نے ایف آئی اے کو وقار احمدکیخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ ثابت نہیں کر سکے پیسہ کیسے ملک سے باہر لے کر گئے، 6 کروڑ روپے جمع کرائیں۔ وکیل نے کہا میرے موکل کی طرف سے جو رقم بنتی ہے وہ دینے کیلئے تیار ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا سینیٹر وقار کو گرفتار کریں، انہوں نے ایک ارب روپے پر ایمنسٹی لی اور صرف 5 فیصد ٹیکس دیا، سینیٹر وقار ایک ارب روپے کیسے لے کر آئیں ؟ ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیں، بادی النظر میں سینیٹر وقار نے دبئی جائیداد منی لانڈرنگ سے بنائی، لانچز اور ہنڈی کے ذریعے پیسہ باہر بھجوایا گیا، ایف بی آرتفتیش کرے گی تو پتا چلے گا پیسہ کیسے باہر گیا۔بعد ازاں عدالت نے وقار احمد کے وکیل کی درخواست پر ہدایت کی کہ وقار احمد 6کروڑ روپے جمع کرائیں اور قانونی مقدمات کا سامنا کریں جبکہ اپیل کا حق استعمال کرسکتے ہیں ۔ اس دوران فاضل بینچ نے ایف بی آر کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کا جائزہ لیا جس میں 21افراد کو جاری کئے گئے نوٹسزپر کاروائی کے بارے میں بتایا گیا تھا ، عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پانچ افراد سے چار کروڑ50لاکھ روپے وصول کئے گئے ہیں ۔ نوشاد ہارون سے 2کروڑ، شیخ فرید سے ایک کروڑ20لاکھ، نورین سمیع خان سے 50لاکھ روپے وصول کئے گئے ہیں جبکہ دو افراد سے ابھی پیسے وصول کرنے ہیں ۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کہاکہ دبئی میں پاکستانیوں کی کل 2154جائیدادوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔ وقار احمد کے وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل نے دبئی میں قرض لے کر کاروبار کیا تھا کاروبار کا دیوالیہ نکل گیا تو وہ واپس آئے اورایمنسٹی سکیم میں ایک ارب روپے ظاہر کئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ30ہزار ملین سے زائد کا معاملہ ہے یہ پیسہ ہنڈی اور لانچوں کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا گیا ، ہر شخص یہی بہانابناتا ہے کہ وہاں پر ان کے کاروبار کا دیوالیہ نکل گیا تھا ، چیف جسٹس نے ایف بی آر حکام سے کہاکہ سپریم کورٹ کے نوٹس پر آپ نے ان لوگوں سے یہ رقم وصول کی ہے پہلے آپ نے یہ کام کیوں نہیں کیا محکمے اسی مقصد کے لئے قائم کئے گئے ہیںایسے معاملات میں کیوں عدالت کو مداخلت کرناپڑی۔ سرکاری وکیل نے بتایا کہ ای اور شہری آغافیصل کی 9جائیدادیں تھیں جو اس نے ظاہر کردی ہیں ، ان سے جرمانے وصول کئے جارہے ہیں ، دوافراد فیصل حسین اور معین ذبیر نے پراپرٹیز سے انکار کیا ۔ چیف جسٹس نے ایف بی آر حکام سے استفسار کیا کہ باقی 11سو سے زائد مقدمات کا کیا کررہے ہیں ؟ ایف بی آر حکام نے یقین دہانی کرائی کہ قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی ، عدالتی حکم کی تعمیل کی جائے جائے گی ۔عدالت نے بیرون ملک پاکستانیوں کی 2154جائیدادوں کی مکمل تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایف بی آر کو ہدایت کی یہ یہ کام فاسٹ ٹریک بنیادوں پر کیا جائے زیادہ وقت نہیں دیا جائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی بھی صورت پیسہ واپس آنا چاہیئے۔