حکومت کا شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنانے کافیصلہ
حکومت نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنانے کے مطالبہ کو تسلیم کر لیا اپوزیشن لیڈر کو کسی اور کو بھی اس ذمہ داری پر نامزدگی کی پیشکش کی گئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ نیب مقدمات کے پیش نظر اخلاقی تقاضا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے چیئرمین پی اے سی بننے پر ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جائے جو مسلم لیگ (ن) کے حالیہ دور حکومت کے حسابات کی جانچ پڑتال کرے. قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم عمران خان سے اپنی ملاقات کے حوالے سے آگاہ کیا کہ وزیراعظم آمادہ ہیں اپوزیشن لیڈر چیئرمین پی اے سی کے لئے اپوزیشن سے نامزد کر دیں اگر ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں تو اپوزیشن لیڈر کی سربراہی میں پی اے سی کے بعد اس کی خصوصی کمیٹی بنائی جائے جو مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کی آڈٹ رپورٹس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن لیڈر کے پاس نہ ہو۔ وزیر خارجہ نے قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے لئے حکومت اپوزیشن میں تعطل دور کرنے کے لئے متحدہ مجلس عمل سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کر دی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کے پروڈکشن آرڈر ابھی جاری ہوئے وہ اس ایوان میں موجود ہے۔ مل کر ہاؤس کو چلانا ہے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ جمہوری اداروں کو مضبوط کریں۔ سب نے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ہاؤس کا تقدس پامال نہ ہو یہ سب کی ذمہ داری ہے۔ یقینا حکومت کی قدرے زیادہ ذمہ داری ہے۔ فراخدلی دکھانا ہوتی ہے تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ قانون سازی کے لئے چھ اہم بلز تیار ہیں۔ ان کے لئے خصوصی کمیٹی قائم کر دیں اپوزیشن اپنی رائے دے۔ ایوان کو آگے لے کر چلیں۔ قانون سازی نہ ہونے کے معاملے پرحکومت اپوزیشن کوئی پوائنٹ سکورنگ نہ کرے۔ ان رویوں کو تبدیل کرنا ہے۔ حدود و قیود کا عادی بنائیں۔ یہی جمہوریت کی ضرورت ہے۔ الزام تراشی سے نظام نہیں چلے گا۔نظام کو چلانے کے لئے مکمل راستہ نکالیں۔ ہاؤس کو چلنے دو سب کے مینڈیٹ کا احترام کریں جمہوریت کی گاڑی کو چلنے دیں۔ کوتاہ اندیشی سے جمہوریت کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اس ایوان میں ارکان کی تضحیک ہوتی ہے۔ بجٹ سیشن بلڈوز ہوتے رہے اپوزیشن کو باہر اجلاس کرنا پڑا۔ قائمہ کمیٹیوں کے بغیر پارلیمنٹ مکمل نہیں ہے۔ یقینا اصولی طور پر اپوزیشن لیڈر کو چیئرمین پی اے سی ہونا چاہئے۔ آج ہی وزیراعظم سے بات ہوئی ہے۔ اپوزیشن بضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتی ہے تو اپوزیشن لیڈر کو چیئرمین پی اے سی بنائیں۔ تاہم وزیراعظم کا موقف ہے کہ اپوزیشن لیڈر پر نیب کے کیسز ہیں انہیں چیئرمین پی اے سی بنانے سے پاکستان کا صحیح امیج نہیں جائے گا۔ دنیا میں کسی بھی جگہ سے اعتراض اٹھ سکتا ہے۔ اگر تب بھی ان کا اصرار ہے تو مسلم لیگ (ن) کے دور حکومتکے حسابات کی جانچ پڑتال کے لئے پی اے سی کی کمیٹی بنائی جائے۔ اچھا ہے کہ اخلاقی کمیٹی بھی بن رہی ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے بارے میں بھی سپیکرز اپنا ذہن استعمال کرتے ہیں کہ فیصلہ کرنا ہے۔