عدالتی اصلاحات کا عمل تیز کرنا ہوگا,پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ ہے۔ لیکن یہاں ابھی تک اٹھارہ سو بانوے کا قانون رائج ہے, چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نیشنل جوڈیشنل پالیسی میکنگ کمیٹی کے اجلاس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس کا مقصد عدالتی اصلاحات کی مہم کو تیز کرنا ہے۔ اگر ماتحت عدالتوں میں مقدمات کا فیصلہ بروقت ہو گا تو اعلٰی عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ چیف جسٹس ثاقب نثارکا کہنا تھا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ موجودہ نظام درست ہے یا نہیں، فوجداری مقدمات کا بھی یہی حال ہے۔ آٹھ سال بعد پتا چلتا ہے کہ مقدمہ جھوٹا تھا۔ کیا جیل میں گزارا ہوا وقت واپس آسکتا ہے۔ چیف جسٹں کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کی مجبوری یہ ہے کہ ہم قانون سازی نہیں کر سکتے، پارلیمنٹ کا کام ہے کہ قانون سازی کرے۔ یہاں اب تک اٹھارہ سو بانوے کا قانون رائج ہے۔ کئی قوانین تو اٹھارہ سو ساٹھ میں بنے تھے۔ کیا اس وقت کا قانون موجودہ صورتحال میں قابل عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سول جج کوایک مقدمے کے لیے دو منٹ چوبیس سیکنڈ ملتے ہیں۔ کیا ممکن ہے اتنے مختصر وقت میں مقدمات کو نمٹایا جا سکے۔ میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ مقدمات کی تاخیر کا الزام ججوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ الزام کو تسلیم کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کون قصوروار ہے۔ جج قصوروار ہیں یا موجودہ نظام۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو سہولیات فراہم کریں، کام نہ ہو تو احتساب کریں۔ تفتیش اور پراسیکیوشن کی کوتاہی سے ملزم بری ہوجاتا ہے۔ صرف پنجاب میں معیاری فرانرک لیبارٹری نظر آئی ہے۔ اجلاس میں سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان بھی موجود تھے