سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے شاہ زیب قتل کیس میںملزمان کی رہائی کیخلاف سول سوسائٹی کی اپیل سماعت کیلئے منظور کرلی
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کی رہائی کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اے ٹی سی نے واقعہ کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے اس کے برخلاف فیصلہ دیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے واقعہ کو ذاتی جھگڑا قرار دے دیا اور اہم قانونی نکات کو نظر انداز کیا۔ یہ کوئی عام جھگڑا نہیں تھا، عدالت نے قرار دیا تھا کہ واقعے سے سوسائٹی میں خوف پھیلا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں قانون کو دیکھنا ہے سول سوسائٹی کا احترام کرتے ہیں مگر قانون بالا دست ہے۔ درخوستگزار کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کو طے کرنا ہے کہ دہشت گردی تھی یا نہیں۔ اگر یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں تو سول سوسائٹی فریق نہیں بن سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ٹرائل کا بھی جائزہ لینا ہوگا اسے کیس سے الگ نہیں کرسکتے۔ وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہ کوئی قتل کا عام واقعہ نہیں ملک بھر میں مظاہرے ہوے جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم احتجاج اور مظاہروں پر نہیں قانون کے مطابق فیصلہ دیں گے۔ ہمیں قانونی دلائل دیں اور حوالے بتائیں۔ وکیل شاہ رخ جتوئی لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ تھپڑ مارنے پر جھگڑا بڑھا اور معافی نہ مانگنے پر گولی چل گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس انا نے ہی ہمیں برباد کردیا۔ ملزم غلام مرتضیٰ لاشاری کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہمارا فوجداری نظام واضح ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکا کہ واقعہ سے خوف یا دہشت پھیلی۔ عدالت نے سول سوسائٹی کی اپیل سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو ملزمان کا نام ایک سی ایل میں شامل کرنے کا حکم دیے دیدیا۔ ملزمان کے قابل ضمانت وارنٹ بھی جاری کردیئے