سپریم کورٹ نے شیخ رشید کو الیکشن لڑنے کیلئے اہل قرار دے دیا
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید 25 جولائی کا انتخاب لڑسکیں گے۔ عدالت عظمی نے بیس مارچ کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا، 51 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں جسٹس شیخ عظمت سعید نے لکھا کہ درخواست میں روپا ایکٹ کے تحت اٹھائے گئے نکات سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، قانون کا اطلاق ہر کیس میں اس کے حقائق کے مطابق کیا جاتا ہے، اس حوالے سے مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں، ستائیس صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال اٹھایا کہ کیا کاغذات نامزدگی میں ہر غلط بیانی کا نتیجہ نااہلی ہے؟ کیا آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لاء کے ذکر میں سپریم کورٹ بھی شامل ہے؟ کیا 184/3 میں آرٹیکل 62-1 ایف کے تحت نااہل کیا جاسکتا ہے؟ کیا عدالتی کارروائی کے دوران غلط بیانی کو نااہلی کیلئے زیر غور لایا جاسکتا ہے؟ کیا کسی شخص کی انتخابی عذرداری کو عوامی مفاد کا معاملہ قرار دیا جاسکتا ہے، غلط بیانی پر نااہلی کی مدت تاحیات ہوگی یا آئندہ الیکشن تک؟ جسٹس قاضی فائز نے سوالات کے جواب کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کی سفارش کی، تین رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ اٹھائے گئے نکات پر علمی بحث کسی اور موقع پر کی جاسکتی ہے، فل کورٹ سماعت کی صورت میں فیصلہ انتخابات سے قبل ممکن نہیں ہوسکے گا اور تاخیر پر الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھیں گے۔ شیخ رشید کی نا اہلی کیلئے مسلم لیگ ن کے رہنما شکیل اعوان نے الیکشن ٹربیونل میں درخواست دائر کی تھی جسے ٹربیونل نے تکنیکی بنیادوں پر خارج کردیا تھا۔ شکیل اعوان نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا تھا۔ درخواست میں شیخ رشید پر دوہزار تیرہ کے کاغذات نامزدگی میں اثاثے چھپانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔