متحدہ اپوزیشن میں وزیراعظم نوازشریف کے استعفے کے مطالبے پر اختلافات پیدا ہو گئے۔

متحدہ اپوزیشن میں وزیراعظم محمد نوازشریف کے استعفے کے مطالبے پر اختلافات پیدا ہو گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی نے واضح کر دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے سے قبل وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی واضح کر دیا ہے کہ نئے انتخابات نہیں بلکہ وزیراعظم کو استعفیٰ دینا چاہئے اور قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے۔ اپوزیشن کی اکثریت جماعتیں وزیراعظم کے فی الفور استعفے کے مطالبے پر متفق ہو گئی ہے۔ اپوزیشن کی دو جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی نے اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کیا اور موقف اختیار کیا کہ نوازشریف کے مستقبل کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنے دیں۔جمعہ کو متحدہ اپوزیشن کا اجلاس اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جو 3 گھنٹے تک جاری رہا۔ اجلاس امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق، تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیرپاؤ، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور، عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد، فاٹا سے پارلیمانی رہنما شاہ جی گل آفریدی، عوامی جمہوری اتحاد کے عثمان ترکئی شریک ہوئے۔ سپریم کورٹ میں پانامہ سکینڈل کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے 60 دنوں میں اپنا کام مکمل کیا۔ جے آئی ٹی بننے پر حکمرانوں نے خوشیاں منائیں اور مٹھائیاں تقسیم کیں جیسے ہی تفتیش کا عمل شروع ہوا پہلے ہی ہفتے میں جے آئی ٹی پر حکومت کی طرف سے حملے شروع کر دیئے گئے اور اسے متنازعہ بنانے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ جے آئی ٹی کا حکمران طبقے کے سامنے رکھا جانے والا سوالنامہ تھا اور ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی جس کے بعد جان بوجھ کر تنازعہ کھڑا کر دیا گیا۔ رپورٹ کی صورت میں حقائق قوم کے سامنے آ چکے ہیں۔تفصیلی تحقیقات ہوئیں، حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کے بارے میں اس رپورٹ پر بھارت بھی پریشان ہے۔ اب تو سارے ثبوت اور شواہد پیش ہو چکے ہیں۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ دو تین افراد ہوں گے یہ تو سارا حکمران خاندان ملوث نکلا ہے۔ سارے خاندان کا چٹھا بٹہ کھول کر رکھ دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ سمیت قوم سے دو بار خطاب میں استعفیٰ کی پیشکش کی تھی وزیراعظم کو اپنے ان تینوں وعدوں کی پاسداری کرنی چاہئے وزیراعظم کا جھوٹ پکڑا گیا ہے اور جب ایسا ہو جائے تو وہ قوم کا اعتماد کھو بیٹھتا ہے۔ وزیراعظم وعدہ خلافی نہ کریں، استعفیٰ دیں، پوری قوم ان کے استعفے پر متفق ہے۔ اپوزیشن جمہوری پارلیمانی نظام کو چلتا دیکھنا چاہتی ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ نیا وزیراعظم لے کر آئیں ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے۔ پیپلزپارٹی ایسی روایت قائم کر چکی ہے۔ خورشید شاہ نے تصدیق کی کہ قومی وطن پارٹی اور اے این پی کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے دیں۔ تاہم ساری اپوزیشن اس پر متفق ہے کہ حکومت کو مدت پوری کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ساری جماعتیں جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے گا ہم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ رپورٹ عدالت کے سامنے ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی ریکوزیشن جمع کرانے کا اختیار اپوزیشن لیڈر کو دے دیا ہے۔ جے آئی ٹی کی کارکردگی پر نہ صرف قوم مطمئن ہے بلکہ اس کے بعد قوم کی توقعات بھی بہت بڑھ گئی ہیں۔ رپورٹ میں حیران کن انکشافات کئے گئے ہیں۔ ہم سب جمہوریت و آئین کے ساتھ ہیں اور اپوزیشن کسی صورت نہیں چاہتی کہ جمہوریت ڈی ریل ہو۔ ایسا کبھی سوچا تھا نہ چاہیں گے اور نہ کبھی ایسا ہو گا۔ ہماری مسلم لیگ (ن) کے ساتھ لڑائی نہیں بلکہ کرپٹ لوگوں کے ساتھ لڑائی ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ نوازشریف اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ نے الٹرا ساؤنڈ کر دیا ہے۔ 100 فیصد مثبت رپورٹ ہے۔ نسخہ اور دوائی سپریم کورٹ نے تجویز کرنی ہے۔ مریض کی حالت یہی ہے اسے استعفیٰ دینا چاہئے۔ ہم سب کرپشن کے خاتمے پر متفق ہیں۔ احتساب سب کا چاہتے ہیں اپوزیشن اپنے آپ کو بھی احتساب کے لئے پیش کرتی ہے۔ آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ ختم ہونا چاہئے۔ ہم جمہوریت کے دفاع کے لئے ساتھ ہیں اور جمہوریت کو پاکستان میں اس کی روح کے مطابق آگے بڑھنا چاہئے۔ پاکستان ایک جسم ہے اور جمہوریت اس کی روح ہے۔ جمہوریت کے بغیر پاکستان کے وجود کو قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ''No'' نئے الیکشن، ہم وزیراعظم کا استعفیٰ چاہتے ہیں اور قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ ان کی جماعت اور اے این پی فی الفور وزیراعظم کے استعفے سے متفق نہیں ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا جائے اور ہم نے ایسا مشاورتی اجلاس میں بھی واضح کر دیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد نوازشریف کے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہ جاتا۔ وزیراعظم کو اعلیٰ ترین اخلاقی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اپوزیشن کی اکثریت ان کے استعفیٰ پر متفق ہے جو جماعتوں نے بھی وزیراعظم کے حوالے سے حجت کے طور پر کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ احتساب کا آزاد و خودمختار نظام قائم کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں خورشید شاہ نے کہا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے تو ہم جلاؤ گھیراؤ کریں۔ جب فیصلہ عدالتیں کریں اور عدالتوں پر اعتماد بھی ہو تو پھر جلاؤ گھیراؤ نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ ریکوزیشن کیلئے 86 ارکان کے دستخط درکار ہوتے ہیں۔ 98 نے دستخط کر دیئے ہیں۔