شام کی جنگ میں 5لاکھ افراد کی ہلاک ہوئے۔
شام میں جاری جنگ میں اب تک تقریبا 5 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ شام میں سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ باغی جنگجو حمص شہر میں اپنا آخری علاقہ بھی چھوڑنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق حمص کے گورنر طلال براضی کا کہنا ہے کہ ال وائر کو خالی کرانے مقامی قائدین کے ساتھ طے پانے والے موجودہ معاہدے کا حصہ تھا اور اس میں چھ سے آٹھ ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے۔حکومت مخالف ذرائع کا کہنا ہے کہ باغیوں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ باغیوں کے زیر انتظام شمالی شام کے علاقوں میں جانے کی اجازت ہوگی۔پہلے مرحلے میں 300 باغیوں نے علاقہ چھوڑا اور حکومت ان کو محدود امداد اور کھانے پینے کی اشیا فراہم کیں۔اس کے بعد دوسرے مرحلہ ستمبر میں شروع ہوا جب کئی سو مزید باغیوں نے علاقہ خالی کیا اور حکومت نے دو سو کے قریب قیدیوں کو رہا کیا۔حمص میڈیا سینٹر سے حکومت مخالف ذرائع نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کے آنے والے ہفتوں میں مزید دو مرحلوں میں دس ہزار سے 15 ہزار کے قریب افراد کئی گروپوں کی شکل میں علاقے سے نکل جائیں گے۔خیال رہے کہ ال وائر کے علاقے میں بسنے والے افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 75000 کے قریب ہے اور یہ علاقہ 2013 کے بعد سے حکومتی فورسز کے محاصرے میں ہے۔شام کے وسطی علاقے میں واقع حمص کو ایک وقت میں 'انقلاب کا درالخلافہ' بھی کہا جاتا تھا اور یہیں 2011 میں پہلی بار صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔حکومتی افواج نے 2012 میں اس شہر میں موجود باغیوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی اور دو سال تک شہر کے قدیم حصے کے محاصرے کے بعد بالآخر باغی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے تھے۔واضح رہے کہ ال وائر مغربی علاقہ ہے اور یہ باغیوں کے زیر انتظام آخری ضلع ہے۔باغیوں نے ایک امن معاہدے کے تحت دسمبر 2015 میں حمص کو خالی کر دیا تھا جس کے بعد سے یہ شہر حکومت کے کنٹرول میں ہے۔