تاریخی ورثہ ہمیں ماضی سے جوڑےرکھتا ہےایسی ہی ایک ذریعہ لاہور میں واقع دائی انگہ کاتاریخی مقبرہ بھی ہے،جواب زبوں حالی کاشکار ہے
دائی انگہ کااصل نام زیب النسا بیگم تھا جو تاج محل کے خالق شہنشاہ شاہ جہاں کی دایہ تھی،،اس کامقبرہ آٹھ کمروں اور ایک گنبد پر مشتمل ہے،،جس کے گرد گلابی باغ پھیلا ہوا ہے،جو سولہ سو پچپن عیسوی میں تعمیر کیاگیا تھا،،جب کہ اس مقبرے کی تعمیر سولہ سو اکہترکو پایہ تکمیل تک پہنچی،،دائی انگہ کے مقبرے کی حالت قابل رحم ہے،،جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کاشکار اس مقبرے سے سیاحوں نے بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کیا،،جس سے اس کا حسن گہنایا ہی تھا،،اس کے ساتھ ہی ارد گرد پھیلےگلابی باغ کے بیشتر حصے پر لوگوں نے قبضہ بھی کرلیاہے،،دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی،،لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے،،کے مصداق ہمسائیوں نے اپنے گیٹ اور دروازے بھی اسی احاطے میں بنا رکے ہیں ،،اوربوقت ضرورت لان کاکام بھی لیاجاتاہے،،اگرچہ اورنج لائن ٹرین کے راستے میں آنے کی وجہ سے محکمہ آثار قدیمہ کو بھی اس کی بحالی کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز ملے ہیں،، لیکن باغ سےاہل علاقہ کی آمدورفت بند کرنے میں اس کو بھی دلچسپی نہیں،،