تحریکِ انصاف کی حکومت کی جانب سے کفایت شعاری مہم کے سلسلے میں جن چار ہیلی کاپٹرز کو نیلام کرنے کا اعلان کیا ہے
وزیراعظم کے دفتر سے کابینہ ڈویژن کو ایک خط بھیجا گیا ہے جس میں چاروں ہیلی کاپٹرز کو نیلام کرنے کی تیاریاں کرنے کی ہدایت کی گئی۔ مراسلے کے جواب میں کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے دفتر کو ان ہیلی کاپٹرز کی ‘حالت زار’ سے آگاہ کیا جس کے مطابق ان چاروں میں سے ایک بھی ہیلی کاپٹر اس حالت میں نہیں ہے کہ اسے فوری طور پر فروخت کیا جا سکے کیونکہ ان سب کو اڑنے کے قابل بنانے کے لیے اچھی خاصی رقم خرچ کرنی پڑے گی۔ یہ چاروں ہیلی کاپٹرز پاکستان کو امریکہ نے ریلیف اور ریسکیو کے لیے تحفتاً دئیے تھے۔ بیل ہیلی کاپٹر کمپنی کے بنائے ہوئے دو UH-1H ہیلی کاپٹر ماڈل 1971-74 اور دو 1993-1992 میں پاکستان آئے تھے۔ ذرائع کے مطابق چاروں ہیلی کاپٹر غیر استعمال شدہ حالت میں کئی سال سے ہیلی پورٹس پر کھڑے ہیں۔ کابینہ ڈویژن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 1993-92 ماڈل کے ہیلی کاپٹرز کو تو چند پرزے ڈال کر قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے لیکن اس پر بھی کروڑوں روپے خرچ ہوں گے جبکہ 1974-71 ماڈل کے ہیلی کاپٹرز کو اڑنے کے قابل بنانا مزید مہنگا اور مشکل کام ہو گا۔ یہ تمام ہیلی کاپٹرز گو کہ ریلیف کے کام کے لیے آئے تھے لیکن یہ وہ ماڈلز ہیں جن پر جدید اسلحہ بھی نصب کیا جا سکتا ہے اس لیے انہیں کسی مقامی خریدار کو فروخت نہیں کیا جا سکتا، ان کا عالمی منڈی میں خریدار ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔