کسی شخص کے ٹیکس ریکارڈ تک غیر قانونی رسائی فوجداری جرم ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ آف پاکستان میں نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل کے دوران موقف اپنایاہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے کبھی مجھے صفائی کا موقع نہ دے کر انصاف کا قتل عام کیا، ججز سے غلطی ہو جائے تو عدالت کونظر ثانی کا اختیار حاصل ہے،عدالتی حکم آئین اور متعدد قوانین کے خلاف ہے، کسی شخص کے ٹیکس ریکارڈ تک غیر قانونی رسائی فوجداری جرم ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایاکہ فروغ نسیم نے حلف کی خلاف ورزی کی انہیں فوری طور پر برطرف کیا جانا چاہئے۔جمعرات کو جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ نے جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کا آغا زکیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود اپنی وکالت کرتے ہوئے دلائل شروع کئے اور موقف اپنایاکہ میری اہلیہ کیس میں فریق نہیں تھیں پھر بھی انکے خلاف فیصلہ دیا گیامیں اپنی اہلیہ بیٹی اور بیٹے سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ میری وجہ سے اہلیہ اور بچوں کے خلاف سپریم کورٹ کافیصلہ آیا ۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ آج تک ایک شخص عدالت میں موجود نہیں ۔وزیرقانون فروغ نسیم کے لیے عدالت کا احترام نہیں وزرات ضروری ہے۔ فروغ نسیم نے میری اہلیہ اور مجھ پر الزامات عائد کیے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیرقانون کو شاید اسلامی تعلیمات کا بھی علم نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی اپنی اہلیہ کے لیے کام کرتے تھے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ کہنے کو ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں لیکن دراصل منافقین کی قوم ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل میں گانے اور شاعری کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اپنایاکہ '' غم عشق لے کر جائیں کہاں''''' آنسوئوں کی یہاں قیمت نہیں''۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ کی طرف سے کیس ایف بی آر کو بھیجوانے کا فیصلہ عدالتی اختیارات سے تجاوز تھا۔آئین کا آرٹیکل 184/3 بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہے۔ میری بیٹی اور بیٹے کو ایف بی آر نوٹس کا حکم بنیادی حقوق کے زمرے میں نہیں آتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز سے غلطی ہو جائے تو عدالت کونظر ثانی کا اختیار حاصل ہے،عدالتی حکم آئین اور متعدد قوانین کے خلاف ہے، کسی شخص کے ٹیکس ریکارڈ تک غیر قانونی رسائی فوجداری جرم ہے،وزیر قانون نے اپنے دلائل میں انکم ٹیکس قانون کی دفعہ 198 کو بنیادی حقوق کے خلاف قرار دیا تھا،کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد بھی فروغ نسیم تحریری دلائل جمع کراتے رہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایاکہ فروغ نسیم نے حلف کی خلاف ورزی کی انہیں فوری طور پر برطرف کیا جانا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی ایف بی آر کو کارروائی مکمل کرنے کا کہا گیا، ٹیکس کمشنر ذولفقار احمد نے عدالت کے دباؤ میں آکر کارروائی کی، سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان نے بدنیتی پر مبنی کارروائی کی،سپریم جوڈیشل کونسل نے کبھی مجھے صفائی کا موقع نہ دے کر انصاف کا قتل عام کیا،جسٹس قاضی کا کہنا تھا کہ صدر نے میرے تین خطوط کا جواب تک دینا گوارا نہیں کیا،مجھے ریفرنس کی کاپی نہیں ملی لیکن میڈیا پر بینڈ باجا شروع ہوگیا،میرے اور اہلخانہ کیخلاف فیفتھ جنریشن وار شروع کی گئی۔سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے میرا موقف سنے بغیر میری پیٹھ میں چھرا گھونپا، میرے ساتھی ججز نے جوڈیشل کونسل میں مجھے پاگل شخص قرار دیا، یہ بھی کہا گیا عمران خان کی فیملی کے بارے میں بات نہیں ہوسکتی،عمران خان کرکٹر تھے تو ان کا مداح تھا آٹوگراف بھی لیا، عمران خان بھی ایک انسان ہیں، جسٹس عظمت سعید میرے دوست تھے لیکن ان کے فیصلے پر دکھی ہوا، جسٹس عظمت سعید آج حکومت کی پسندیدہ شخصیت ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ملک کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے، پاکستان کو باہر سے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا،جسٹس عمر عطابندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں ہیں ان کی نشاندہی کریں، سپریم جوڈیشل کونسل کے بارے میں آپکے وکیل نے دلائل نہیں دیئے تھے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میری درخواست کا ایک حصہ ریفرنس دوسرا جوڈیشل کونسل سے متعلق تھا،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آپ کے وکیل نے جوڈیشل کونسل والے حصے پر دلائل نہیں دئیے تھے تواس حصے پر نظرثانی میں دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ عدالت نے ریفرنس کو اپنے فیصلے میں زندہ رکھا ہے اورسپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف مجھے سنگین تحفظات ہیں، میرا کیس دوبارہ جوڈیشل کونسل بھجوانے کے حوالے سے دلائل دوں گا، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ جن ججز کے آپ نام لے رہے ہیں وہ ریٹائر ہوچکے ہیں،بار بار دو ججز پر الزامات نہ لگائیں، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ اپنے کیس پر دلائل دیں آپکی مہربانی ہوگی، جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ ہمارا کام لوگوں کو جیل بھجنا نہیں فیصلے کرنا ہے، ہم کیس چلانا چاہتے ہیں آپ کہانیاں نہ سنائیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان ہر روز ٹاک شوز میں آتے ہیں، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ٹاک شوز میں کون آتا ہے اس سے ہمارا سروکار نہیں، جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ آپ ایف بی آر والے معاملے پر دلائل دیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ایف بی آر نے آج تک مجھے نوٹس نہیں بھیجا،میرے بچے اور اہلیہ میرے زیر کفالت نہیں، لندن جائیدادیں خریدتے وقت بھی اہلیہ اور بچے زیر کفالت نہیں تھے، عمران خان کی طرح میری اہلیہ نے جائیداد نہیں چھپائی، نیازی سروسز والا کیس ایف بی آر کو نہیں بھیجا گیا،میرے کیس میں عدالت نے تفریق سے کام لیا، لندن جائیدادوں کی کل مالیت ایف سکس کے ایک پلاٹ کے برابر نہیں، لیکن وزیرقانون فروغ نسیم روسٹرم پر آکر جھوٹ بولتے رہے، میرے سسر کا انتقال ہوگیا اس کی کسی کو فکر نہیں، سال 2019 میں گرمیوں کی چھٹیاں لیں،ان چھٹیوں کے دوران سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی کی، میرے سسر کا آپریشن تھا اسی دوران ہی مجھے تکلیف دی گئی، وقت کم ہے عدالت صبح 9:30 بجے سماعت کیا کرے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ آپکو وقت کی قلت کا خیال اب آیا ہے، نظرثانی کیس شروع ہوا تو آپ نے نئی درخواست ڈال دی، مارچ کا پورا مہینہ آپ نے ضائع کر دیا، جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس فائز عیسیٰ سے کہاکہ ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں اپنا کیس چلائیں، جسٹس مقبول باقرنے کہاکہ وقت کی قلت ہے تو اپنے دلائل کو محدود کریں۔بعدازاں وقت ختم ہونے پرعدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔