اسرائیل بارے سعودی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ شہزادہ ترکی الفیصل
سعودی عرب کے انٹیلی جنس ادارے کے سابق سربراہ اور چیئرمین شاہ فیصل مرکز برائے تحقیق اور اسلامی مطالعات شہزادہ ترکی الفیصل نے اس نظریے کو مسترد کردیا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ کوئی تعاون کررہا ہے، اسرائیل کے حوالے سے سعودی عرب کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے حوالے سے سعودی عرب کے موقف میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ۔اس ضمن میں باتیں محض خیالی پلا ہی ہیں۔انھوں نے ایک سوال کے جواب میں ایران فائل کے حوالے سے حالیہ مفاداتی سنگم کی بنیاد پر سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے متعلق دعوؤں کو مسترد کردیا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ محض اس بنیاد پر سعودی عرب کے موقف میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔میڈیا اور دوسرے ایرانی خطرے کی بنا پر ا سرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کے حوالے سے خیالی پلاؤ ہی پکا رہے ہیں اور وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ، وہ محض ان کی اپنی خیالی سوچ ہی ہے۔انھوں نے اس انٹرویو میں سعودی عرب میں منعقدہ گذشتہ عرب سربراہ کانفرنس کا حوالہ دیا اور کہا کہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے یروشلیم ( مقبوضہ بیت المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے بعد شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے یہ کانفرنس طلب کی تھی اور اس کو یروشلم سمٹ کا نام دیا تھا۔شہزادہ ترکی الفیصل نے کہاکہ اس سربراہ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں عرب دنیا کے اس موقف کا ا عادہ کیا گیا تھا کہ عرب من اقدام کے مطابق یروشلم کو آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا چاہئے ۔انھوں نے شاہ سلمان کی فلسطینی صدر محمود عباس سے حالیہ ملاقات میں گفتگو کا بھی حوالہ دیا ہے۔اس میں انھوں نے اس موقف کا اعادہ کیا تھا کہ سعودی عرب یروشلم دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔انھوں نے کہا کہ الریاض میں اس ملاقات کے بعد شاہ سلمان کی طرف سے جاری کردہ بیان کو ملاحظہ کیجیے۔اس میں انھوں نے عرب امن اقدام سے سعودی عرب کی وابستگی کے پختہ عزم کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست قائم ہونی چاہیے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔ انھوں نے کہا کہ شاہ سلمان کا بیان دراصل سعودی عرب کی ( تنازع فلسطین ) سے متعلق دیرینہ پالیسی ہی کا اعادہ ہے اور اس کے دیرینہ موقف کا مظہر ہے۔