کورونا بہانہ ہے، بیروزگاری پہلے سے ہے۔ سراج الحق
امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا میں کراچی پر بڑا دباؤ ہے،کراچی کو میگاسٹی کا درجہ دے کر مکمل اختیارات اور وسائل دیے جائیں تاکہ کورونا کی وبا اور دیگر مسائل حل کیے جاسکیں،وفاقی و صوبائی حکومتوں کاایک مؤقف نہ ہونے کی وجہ سے کورونا کو فائدہ اور عوام کو نقصان ہورہا ہے،ایک لاک ڈاؤن حکومتی وزرائ کی زبانوں پر بھی لگنا چاہیئے جنہوں نے کورونا کو بھی سیاست زدہ کردیا ہے،کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اعداد وشمار مشکوک ہیں،حکومت کو دس کروڑ ماسک عوام میں مفت تقسیم کرنے چاہیئے تھے تاکہ عوام کو کچھ فائدہ ہوتا،پی ٹی آئی حکومت کا بجٹ معاشی بدحالی اور بے روزگاری کا سونامی ہے، بجٹ کے اعداد و شمار کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے،بجٹ میں حکومت نے عوام اور ملکی مفادات کے بجائے صرف آئی ایم ایف کے مفادات کو مد نظر رکھا، ہم بجٹ کو مسترد کرتے ہیں،حکومت بجٹ پر نظر ثانی کرے،اپوزیشن کے ساتھ مل کر بجٹ کے حوالے سے مشترکہ مؤقف اپنائیں گے،پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور جے یو آئی سے رابطے میں ہیں،موجودہ حکومت کا 22ماہ کا سفر خود اپنے اعلانا ت اور وعدوں کے برخلاف الٹا سفر ہے،اس حکومت کے آنے کے بعد ملکی معیشت اور عوام کی حالت زارمزید خراب ہوگئی ہے، کورونا کی وبا تو صرف ایک بہانہ ہے۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے اتوار کے روز ادارہ نورحق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی،کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن،نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی،رکن سندھ اسمبلی و امیر ضلع جنوبی سید عبد الرشید،سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے۔سینیٹر سراج الحق نے کورونا وائرس کی وبااوراس حوالے سے وفاقی وصوبائی حکومتوں اور این ڈی ایم اے کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ کورونا مریض، ڈاکٹر اور عام آدمی سخت مشکلات میں ہیں،اسپتالوں، ڈاکٹروں اور طبی عملے کو وہ سہولیات نہیں دی گئی جودینی چاہیئے تھیں،کراچی ملک کی معاشی اور نظریاتی شہہ رگ ہے لیکن یہاں کے عوام علاج معالجے کی سہولیات سے محروم ہیں،کراچی میں اندرون سندھ،جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے لوگ بھی آتے ہیں اس لیے اس شہر کو زیادہ سہولیات اور وسائل دینے چاہیئے تھے مگر نہیں دیے گئے،کراچی کے اسپتالوں میں کم ازکم تین ہزاربیڈز فراہم کیے جائیں اور سرکاری اسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے،آکسیجن سیلینڈرز میں اضافہ کیا جائے۔حکومت ڈاکٹر طاہر شمسی کی پلازمہ کے حوالے سے تجاویز پر غور کرے اور ضروری ہوتو قانون سازی بھی کرے۔الخدمت پلازمہ بنک قائم کرنا چاہتی ہے جس کے لیے حکومت کی اجازت اور تعاون کی ضرور ت ہے۔سراج الحق نے کہاکہ حکومت نے اس بار بھی آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق بجٹ بنایااور اس کی تمام شرائط تسلیم کیں۔بجٹ میں عام آدمی کے لیے کچھ نہیں ہے۔حکومت کو اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنا چاہیئے تھا مگر ایسا نہیں کیاگیا،بجٹ میں پوسٹ کورونا اکانومی کو زیر بحث نہیں لایاگیا۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیاگیا،تعلیمی بجٹ میں کمی کی گئی ہے،دینی مدارس جن میں 31لاکھ طلبہ ہیں،کے لیے بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا حکومت کے مطابق ایک کروڑ 70لاکھ افراد بے روزگار ہوئے لیکن بجٹ میں ان بے روزگاروں کے لیے کچھ انتظام نہیں کیاگیا۔مدینہ کی ریاست کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے اس بجٹ میں بھی سودی نظام کو برقرار رکھا ہے،ہمارا 40فیصد تو سود کی ادائیگی میں چلاجاتا ہے۔کورونا وبا کے بعد ہیلتھ سیکورٹی بہت اہم ہوگئی ہے لیکن اس شعبے کے لیے بھی بجٹ میں کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے،اووسیز پاکستانیوں اور قبائلی علاقوں کے لیے بھی کوئی اسکیم نہیں،بلوچستان،گلگت و بلتستان کے لیے بھی بجٹ میں کمی کی گئی ہے جس سے ان کے اندر مایوسی پھیل رہی ہے،صوبوں کے لیے بھی اپنا بجٹ بنانا مشکل ہوگیا ہے، وزیر اعظم کے مطابق ملک میں 65فیصد نوجوان ہیں جو ملک اور قوم کا اثاثہ ہیں لیکن ان کے لیے صرف 2ارب روپے رکھے گئے ہیں اتنی بڑی تعداد کے لیے اس رقم سے کیا اسکیمیں بنیں گی؟۔بجٹ کی تیاری میں حکومت نے اپوزیشن،تاجروں اور مزدور یونینز سمیت کسی سے مشورہ نہیں لیاصرف آئی ایم ایف سے ہی مشورہ لیا گیا اور مزید ٹیکس لگائے گئے،بجٹ کی منظوری سے قبل ہی مہنگائی کی ایک نئی لہر آگئی ہے اور خوراک کی اشیاکی قیمتوں میں 15سے20فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔یہ بجٹ NFCکے بغیر تیار کیا گیا ہے۔سراج الحق نے کہاکہ جہاں NFCضرورت بھی ہے وہیں صوبوں میں PFCکی ضروری ہے،وفاقی اور صوبائی حکومتیں دونوں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والی حکومت لوگوں کو بے روزگار کررہی ہے،اسٹیل مل کے 9ہزا ر ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جبکہ 5ہزار ریٹائرڈ ملازمین اپنے واجبات کے لیے پریشان ہیں،جماعت اسلامی اسٹیل مل کی نجکاری اور ہزاروں ملازمین کی برطرفی کے خلاف ہرسطح اور ہرفورم پر آواز اٹھائے گی،ہم مزدوروں اور مظلوموں کے حقوق کے ترجمان اور پاسبان ہیں، سراج الحق نے کہاکہ وزیر اعظم کی جانب سے عالمی مالیاتی اداروں سے ملک کے قرضے ری شیڈول کرانے کی اپیل کی گئی اب پاکستان کو چاڈ اور کانگو سمیت افریقی ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے یعنی ان کی نظر میں ہماری معیشت ان ممالک کی معیشت جیسی ہوگئی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے حکم پر معاشی پالیسیاں بنائیں جن کی وجہ سے ملک اور عوام کو مشکلات پیش آئیں،آئی ایم ایف کے حکم پر روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 40فیصد تک کمی کی گئی اور افراط زر میں اضافہ کیا گیا،ہماری فی کس آمدنی میں کمی آرہی ہے،چھوٹے صنعتی یونٹ بند ہورہے ہیں،بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے 1950سے اب تک 1965کی جنگ اور 1971کے سانحے اور المیے کے موقع پر بھی ہماری شرح نمو کم نہیں تھی لیکن آج یہ شر ح نمو 0.4فیصدپر آگئی ہے جو انتہائی تباہ کن اور خطرناک ہے۔ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کبھی کسی ملک کو ترقی اور خوشحالی نہیں دیتے،ترقی اور خوشحالی کے لیے حکمرانوں کو جرات مندانہ فیصلے کرنے ہوتے ہیں،آج کے حکمران اقتدار میں آنے سے قبل آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کوخود کشی کہتے تھے مگر انہوں نے بھی مزید قرض لیا۔سراج الحق نے کہاکہ ٹڈی دل کی وجہ سے 5کروڑ ایکٹر اراضی متاثر ہوئی ہے ایک سو ارب سے زیادہ نقصان ہوا ہے،جاپان او رچین کی مدد سے ابھی تک صرف5لاکھ ایکٹر اراضی پر اسپرے کیا گیا ہے،بڑی تباہی اور بربادی کا خطرہ ہونے کے باوجود حکومتی سطح پر قبل از وقت کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اب اس کے خاتمے کے لیے ٹائیگر فورس کی باتیں کی جارہی ہیں،حکومت خیالوں کی دنیاسے نکلے،شہزادوں کی طرز حکمرانی آج کے دور میں نہیں چل سکتی،اس طرح کورونا کی وبا سے بچاؤ کے لیے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے فیصلے اور اقدامات کی ضرورت ہے۔یہ مرض مسلسل بڑھ رہا ہے،خطرا ت میں اضافہ ہورہا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو کوئی غم نہیں ہے اور حکومت صرف ون ویلنگ کررہی ہے۔