نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعے کی نماز کے دوران مساجد پر دہشتگرد حملے میں 49 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔
اس واقعے کی پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک،عالمی شخصیات اور آئی سی سی سمیت مختلف تنظیموں نے شدید مذمت کی،خود نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے حملے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔
آسٹریلوی حملہ آور برینٹ ٹیرنٹ نے اس پورے حملے کی فیس بک پر لائیو اسٹریمنگ بھی کی جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ اس کے ہاتھ اور گاڑی میں موجود اسلحے پر سفید رنگ سے انگریزی میں کچھ درج ہے۔
ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی ورلڈ نے کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملہ کرنے والے آسٹریلین دہشتگرد برینٹ ٹیرنٹ کے زیر استعمال اسلحے پر درج عبارت کی تشریح پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے۔
ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی ورلڈ نے اس اسلحے کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس پر درج عبارت کی تشریح کچھ اس طرح سے ہے۔
"Anton Lundin Pettersson": اینٹون لنڈن پیٹرسن، یہ اس طالبعلم کا نام ہے، جس نے سوئیڈن میں 2 مہاجر طالبعلموں کو قتل کیا تھا۔
Alexandre Bissonnette: الیگزینڈر بیسونیٹ نے 2017 میں کینیڈا میں ایک مسجد پر حملہ کرکے 6 لوگوں کو قتل کیا تھا۔
Skanderberg: سکندربرگ البانیہ کے اس رہنما کا نام ہے، جس نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت شروع کی تھی۔
Antonio Bragadin: یہ وینس کے اس فوجی افسر کا نام ہے، جس نے ایک معاہدے کی خلاف ورزی کی اور ترک مغویوں کو قتل کیا۔
Charles Martel: یہ اس فرنگی فوجی رہنما کا نام ہے، جس نے معرکہ بلاط الشہداء میں مسلمانوں کو شکست دی تھی، اس معرکے میں اسپین میں قائم خلافت بنو امیہ کو فرنگیوں کی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
ویانا 1683: 1683 میں خلاف عثمانیہ نے دوسری مرتبہ ویانا کا محاصرہ کیا تھا۔
حکام کے مطابق برینٹن ٹیرنٹ مسلمان مخالف اور انتہا پسند مسیحی گروہ کا کارندہ ہے جس نے ناروے کے دہشت گرد اینڈرز بریوک سے متاثر ہو کر دہشت گردی کی ہولناک واردات سرانجام دی۔ بریوک نے 2011 میں ناروے میں فائرنگ کرکے 85 افراد کو ہلاک کیا تھا۔
نیوز ی لینڈ کے حملہ آوروں سے برآمد ہونے والے اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹوں کی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں انہوں نے ماضی میں مسلمانوں اور عیسائی ریاستوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کے ناملکھے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر جنگیں وہ تھیں جن میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔
معرکہ بلاط الشہداء
حملہ آور نے اپنی بندوق پر لکھا Tours 732۔ اس نے دراصل Battle of Tours کا حوالہ دیا جسے عربی میں معرکہ بلاط الشہداء کہا جاتا ہے۔ معرکہ بلاط الشہداء اپنی اہمیت کے لحاظ سے دنیا کی 15 اہم جنگوں میں شمار کی جاتی ہے۔
یہ جنگ 10 اکتوبر 732ء میں فرانس کے شہر ٹورز کے قریب لڑی گئی جس میں اسپین میں قائم خلافت بنو امیہ کو فرنگیوں کی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
اندلس کے حاکم امیر عبد الرحمٰن نے 70 ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوج کے ذریعے اپنی پڑوسی عیسائی ریاست فرانس پر حملہ کیا تھا۔ مسلمانوں نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے فرانس کے علاقوں غال، وادی رہون، ارلس اور د بورڈیکس پر قبضہ کرلیا۔
ضرور پڑھیں: سمن آباد :موٹر سا ئیکلوں کے درمیان تصادم میں 40 سالہ شخص جاں بحق
مسلمانوں کی کامیابی سے مسیحی دنیا خوف زدہ ہوگئی۔ فرانس کے بادشاہ نے دیگر عیسائی ممالک سے مدد طلب کی تو انہوں نے امدادی فوجیں روانہ کیں۔
توغ کے قریب دونوں افواج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی۔ مسیحیوں کی فوج کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اس کے باوجود وہ بہت بہادری سے لڑے۔
مشہور مورخ ایڈورڈ گبن نے اپنی معرکہ آرا تاریخ “تاریخ زوال روما” میں لکھا ’’عرب بحری بیڑا بغیر لڑے ہوئے ٹیمز کے دہانے پر آ کھڑا ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ آج آکسفورڈ میں قرآن پڑھایا جا رہا ہوتا اور اس کے میناروں سے پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کی تقدیس بیان کی جا رہی ہوتی‘‘۔
sebastiano venier
حملہ آور نے اپنی بلٹ پروف جیکٹ پر دوسری عبارت لکھی ’sebastiano venier‘۔
سباستیانو وینئر اطالوی کمانڈر تھا جس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ لیپانٹو میں اطالوی دستے کی قیادت کی تھی۔ جنگ لیپانٹو 7 اکتوبر 1571ء کو یورپ کے مسیحی ممالک کے اتحاد اور خلافت عثمانیہ کے درمیان لڑی جانے والی ایک بحری جنگ تھی جس میں مسیحی اتحادی افواج کو کامیابی نصیب ہوئی۔
مسیحی فوج میں اسپین، جمہوریہ وینس، پاپائی ریاستیں، جینوا، ڈچی آف سیوائے اور مالٹا کے بحری بیڑے شامل تھے۔
10 روز تک جنگ کے بعد مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ اگر مسلمان یہ جنگ جیتے تو آج یورپ سمیت پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔
یہ معرکہ یونان کے مغربی حصے میں خلیج پطرس میں پیش آیا جہاں عثمانی افواج کا ٹکراؤ عیسائی اتحاد کے بحری بیڑے سے ہوا جس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔
یہ بھی دنیا کی فیصلہ کن ترین جنگوں میں سے ایک ہے۔ یہ 15 ویں صدی کے بعد کسی بھی بڑی بحری جنگ میں عثمانیوں کی پہلی اور بہت بڑی شکست تھی جس میں عثمانی اپنے تقریباً پورے بحری بیڑے سے محروم ہو گئے۔
اس جنگ میں ترکوں کے 80 جہاز تباہ ہوئے اور 130 عیسائیوں کے قبضے میں چلے گئے جبکہ 15 ہزار ترک شہید، زخمی اور گرفتار ہوئے اس کے مقابلے میں 8 ہزار اتحادی ہلاک اور ان کے 17 جہاز تباہ ہوئے۔
Marcantonio Colonna
حملہ آور نے جیکٹ پر Marcantonio Colonna لکھا۔ یہ بھی اطالوی بحری فوج کا کمانڈر تھا جس نے جنگ لیپانٹو میں حصہ لیا تھا۔
حملہ آور نے اپنی اسلحے پر چارلس مارٹل کا نام بھی لکھا جو فرانس کا کیتھولک حکمران تھا جس نے معرکہ بلاط الشہداء میں مسیحی افواج کی قیادت کی تھی اور مسلمانوں کو شکست دی تھی۔
ویانا 1683
حملہ آور نے اپنی بندوق کے میگزین پر ویانا 1683 بھی لکھا۔
اس نے دراصل جنگ ویانا کا حوالہ دیا۔ 1683ء میں یہ صلیبی جنگ خلاف عثمانیہ اور صلیبی اتحاد کے درمیان ہوئی۔ سلطنت عثمانیہ کے دسویں عظیم فرمانروا سلیمان عالیشان کے دور میں مسلمان فوج نے 1529 میں آسٹریا کے دار الحکومت ویانا کا محاصرہ کرلیا۔
موسم، راستوں کی خرابی اور رسد کی کمی کی وجہ سے محاصرہ بے نتیجہ رہا اور سلطان کو واپس آنا پڑا لیکن یورپ کے وسط تک مسلمانوں کے قدم پہنچنے کے باعث ان کی اہل یورپ پر بڑی دھاک بیٹھ گئی۔
ویانا کا دوسرا محاصرہ 1683 میں سلطان محمد چہارم کے دور میں ہوا جس کی قیادت ترک صدراعظم قرہ مصطفٰی پاشا نے کی۔ دوسرے محاصرے میں مسلمانوں کو قرہ مصطفٰی پاشا کی نااہلی کے باعث جنگ میں بدترین شکست ہوئی۔ اس شکست کے ساتھ ہی وسطی یورپ میں ان کی پیش قدمی ہمیشہ کے لیے رک گئی بلکہ یہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا۔
نیوزی لینڈ کے حملہ آوروں نے اپنے اسلحے پر اسی طرح کی مزید عبارتیں اور پیغامات بھی تحریر کیے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور دنیا میں مسلمانوں پر لگایا گیا دہشت گردی کا لیبل محض ایک دھوکہ ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مغرب ان چاروں دہشتگردوں سے کیا سلوک کرتا ہے؟ جہاں عافیہ صدیقی کو محض ایک مبینہ حملے کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی وہیں 50 بے گناہ افراد کا خوب بہانے والوں کو کیا سزا ملتی ہے۔