وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا
وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل ناکام ہو چکا ، اس پر کسی کو اعتماد نہیں رہا، ہمیں بطور حکمران جماعت الیکشن کمیشن پر کوئی اعتماد نہیں، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین فوری استعفیٰ دیں اور پارلیمان کو موقع دیا جائے کہ نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے، جس پر سب کا اعتماد ہو، عمران خان کرکٹ میں بھی نیوٹرل امپائر لے کر آئے، الیکشن کمیشن کو نیوٹرل ہونا چاہیے، لیکن موجودہ الیکشن کمیشن نیوٹرل نہیں، فی الحال الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ نہیں، مسلم لیگ(ن)کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہ سیاست کو کس طرف لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔پیر کو وفاقی وزرا ء سینیٹر شبلی فراز اور فواد چودھری کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ آج شہباز گل کے ساتھ جو ہوا ہے، اگر یہ اسی طرح چلتا رہا تو سیاست ایک حد سے بڑھ کر تشدد پر آ جائے گی اور اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن)کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہ سیاست کو کس طرف لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، اس کلچر کو فروغ دینے کا جو وطیرہ بنایا گیا ہے اس کو ختم کریں اور سیاست کو سیاست سمجھ کر کریں۔سینیٹ الیکشن کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کا بڑے عرصے سے یہ مطالبہ تھا کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں پیسے وغیرہ کی سرگرمیوں کو ختم ہوں تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہو۔ان کا کہنا تھا کہ 2015 میں جب نواز شریف نے اوپن بیلٹ کا قانون لانے کی کوشش کی تو وزیراعظم نے مسلم لیگ(ن)سے سیاسی اختلافات کے باوجود اس کا خیرمقدم کیا کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست صاف و شفاف ہو۔انہوں نے کہا کہ 2018میں پھر منڈیاں لگیں اور تحریک انصاف واحد پارٹی ہے جس نے اپنے اراکین کے خلاف ایکشن لیا جن کے بارے میں پتہ چلا کہ انہوں نے پیسے کی لین دین کی۔ان کا کہنا تھا کہ 2021کے سینیٹ انتخابات کے لیے ہم نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جس پر اعلی عدلیہ نے کہا کہ اگر آپ نے ووٹنگ کا طریقہ کار بدلنا ہے تو اس کے لیے آئینی ترمیم ہونی ضروری ہے لیکن انہوں کچھ اور بھی ہدایت اور 218(3) کا حوالہ دیا جو اس بارے میں بڑی واضح ہے۔وزیر تعلیم نے کہا کہ یہ شق کہتی ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا یہ فرض ہو گا کہ وہ انتخاب کا انتظام کرے اور اسے منعقد کرائے اور ایسے انتظامات کرے جو اس امر کے اطمینان کے لیے ضروری ہوں کہ انتخاب ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے مطابق منعقد ہو اور یہ کہ بدعنوانی کا سدباب ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے چیف الیکشن کمشنر سے وفد کی صورت میں ملاقات کر کے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ووٹ خفیہ رکھنے کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی اور اس کا کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہے کہ اگر آپ نے بدعنوان طریقوں کو روکنا ہے تو اس کا کوئی طریقہ بنایا جائے اور استدعا کی کہ اس پر کوئی نشانی لگائے تاکہ اگر ضرورت پڑے تو موقع پر موجود لوگوں کو بے شک نظر نہ آئے لیکن اگر بعد میں ضرورت پڑے تو اس کی تحقیق کی جا سکے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کو مسترد کردیا گیا اور کمیٹی بنا کر کہا گیا کہ آئندہ ہو گا۔شفقت محمود نے کہا کہ سینیٹ الیکشن جب سے ہورہے ہیں ہر بار خریدو فروخت کی باتیں ہوتی ہیں، وزیراعظم عمران خان نے پہلے دن سے اوپن بیلٹنگ کا مطالبہ اور کوشش کی ہے،ویڈیو میں سب نے دیکھا کہ کیسے ووٹ خریدنے کی کوشش کی گئی۔شفقت محمود نے کہا کہ آج صورتحال یہ ہے ہر سیاسی جماعت سینیٹ الیکشن سے مطمئن نہیں، یہ ساری چیزیں عمران خان کے اس موقف کی تائید کرتی ہیں، یہ ناکامی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے، اس پر کسی کو اعتماد نہیں رہا، ہمیں بطور حکمران جماعت الیکشن کمیشن پر کوئی اعتماد نہیں، الیکشن کمیشن کو بحیثیت مجموعی اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار اور مستعفی ہوجانا چاہیے،چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین فوری استعفی دیں اور پارلیمان کو موقع دیا جائے کہ نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے، جس پر سب کا اعتماد ہو، ہم سب مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ الیکشن شفاف ہو جس پر کوئی آواز نہ اٹھے،عام انتخابات ڈھائی سال بعد ہوں گے جب کہ ضمنی الیکشن ہوتے رہتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن پر اعتماد ہونا چاہیے۔شفقت محمود نے مزید کہا کہ عمران خان کرکٹ میں بھی نیوٹرل امپائر لے کر آئے، الیکشن کمیشن کو نیوٹرل ہونا چاہیئے، لیکن موجودہ الیکشن کمیشن نیوٹرل نہیں، فی الحال الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ نہیں۔