آمدن سے زائد اثاثہ کیس: خورشید شاہ مزید 6 روز کے لیے نیب کے حوالے
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اپنے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں رو پڑے۔انہوں نے کہا کہ آج میری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ کیوں کہ مجھ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں۔منگل کوسکھر کی احتساب عدالت میں خورشید شاہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت ہوئی، جس کے دوران نیب حکام نے سابق اپوزیشن لیڈر کو عدالت میں پیش کیا۔ اس موقع پر سیدنوید قمر ،سنیٹرفرحت اللہ بابر،سینٹر مولا بخش چانڈیو، صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ ، منظور وسان ، نفیسہ شاہ اور اویس قادر شاہ بھی موجود تھے۔نیب پراسیکیوٹرنے احتساب عدالت سے خورشید شاہ کے 15 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی، جس پر عدالت نے خورشید شاہ کے ریمانڈ میں 6 روز کی توسیع کر دی۔عدالت نے نیب حکام کو حکم دیا کہ خورشید شاہ کو 21 اکتوبر کو عدالت میں دوبارہ پیش کیا جائے۔دورانِ سماعت خورشید شاہ نے جج سے مکالمے میں کہا کہ آج میری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ کیوں کہ مجھ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں۔جج نے مسکراتے ہوئے کہا کہ شاہ صاحب آپ سے ایک غلطی یہ ہوئی کہ آپ نے اپنے دور میں نیب قانون ختم نہیں کیا۔خورشید شاہ نے کہا کہ میں اگر باہر ہوتا تو نیب کو ہر ثبوت فراہم کرسکتا تھا، لوگ ہم کو ڈر کر نہیں بلکہ پیار سے ووٹ دیتے ہیں۔جج نے خورشید شاہ سے کہا کہ شاہ صاحب میرے پاس آپ کو ضمانت دینے کا اختیار نہیں، ضمانت و رہائی کے لیے آپ کو پراپر فورم پر جانا ہوگا۔خورشید شاہ نے جواب دیا کہ آپ مجھے 3 ماہ کے ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیں، عزت دار سیاستداں ہوں، مجھے اس سب سے تکلیف ہو رہی ہے، میں نے اس سال 27 لاکھ روپے ٹیکس دیا جبکہ میرے بچوں نے الگ ٹیکس دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کہ مجھے عارضہ قلب لاحق ہے، آکسیجن کی کمی کا مسئلہ بھی ہے، گزشتہ رات بھی میری طبیعت خراب ہو گئی تھی، اس وقت نیب حکام میرے ساتھ تھے لیکن میں نے کسی کو نہیں کہا کہ میری طبیعت خراب ہے، بلکہ سپاہی نے خود ہی دیکھا۔اس سے قبل دورانِ سماعت خورشید شاہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے حکم کے باوجود خورشید شاہ کو چیک اپ کے لیے نہیں بھیجا گیا۔نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا چیک اپ نیب کے ڈاکٹرز روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں اور نیب کے ڈاکٹرز کے مطابق خورشید شاہ کو باہر علاج کے لیے بھیجنے کی ابھی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے عدالت کو بتایاکہ خورشید شاہ سے آمدن کے ذرائع پوچھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ فیملی سے پوچھ لو، ان کے ایک اکاﺅنٹ میں 30 کروڑ روپے کہاں سے آئے؟۔نیب وکیل نے کہا کہ جب اس بارے میں خورشید شاہ سے پوچھتے ہیں تو وہ کوئی جواب نہیں دیتے جب کہ ان کے اکاﺅنٹ میں اس وقت تک 28 کروڑ روپے کی ٹرانزکشن ہوچکی ہے لیکن خورشید شاہ نے اس رقم کے بارے میں نیب کو اب تک کو کوئی ثبوت نہیں دیا۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ خورشید شاہ کے پاس 25 کروڑ روپے کا گھر ہے، جس کے علاوہ ان کی سکھر اور کراچی میں کروڑوں روپے کی بے نامی جائیداد بھی ہے۔جج نے وکیل سے پوچھا کہ آپ کے پاس وکیل بننے سے قبل کتنے اثاثے تھے یہ آپ کو یاد ہے؟۔نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جی میں بتا سکتا ہوں کہ میرے کتنے اثاثے تھے اور میرا کیا کاروبار ہے۔نیب وکیل نے کہا کہ خورشید شاہ کے پاس پبلک پراپرٹی ہے، ان کو جواب دینا ہوگا، ان کے تین بینک اکاﺅنٹس مل گئے ہیں جن میں 28 کروڑ ہیں۔نیب نے عدالت سے خورشید شاہ کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 15 روز کی توسیع کی استدعا کی، جس پر جج نے کہا کہ 90 دن کا ریمانڈ بھی دے دیا جائے تو بھی آپ آخر میں صرف الزامات کی فہرست لائیں گے۔بعد ازاں عدالت نے خورشید شاہ کے جسمانی ریمانڈ میں 6 روز کی توسیع کر دی اور نیب کو انہیں 21 اکتوبر کو دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی۔عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی رہنما مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہم احتساب سے نہیں گھبراتے اور ڈرتے، ہم ہمیشہ انصاف کے لیے پیش پیش رہتے ہیں، خورشید شاہ ایک نیک انسان ہیں، اگر خورشید شاہ ڈرتے یا مجرم ہوتے تو پہلے ہی ضمانت کراتے مگر نہیں انہوں نے خود کو انصاف کے لیے پیش کیا۔ آٓصف علی زرداری، فریال تالپور اور خورشید شاہ کے ساتھ انتقامی رویہ ہے جوکہ ناقابل قبول ہے۔ اس طرح کا انتقامی رویہ ہمیں ٹھنڈا نہیں بلکہ بھڑکا رہا ہے۔مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہم پاکستان کو چلانا چاہتے ہیں، ہم اس ملک کی سالمیت چاہتے ہیں۔ آپ لوگ تو معصوم خواتین تک کو نہیں بخشتے یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا خون بہایا گیا۔ عوام خود ہی فیصلہ کرے کہ وہ بہادر اور نڈر نوجوان لیڈر بلاول بھٹو کا ساتھ دیگی یا ایک سلیکٹڈ کا۔