رواں سال پاکستان کی چین کو برآمدات کی شرح 2 ارب ڈالر سے زائد
پاک چین چھوٹے اور درمیانے درجے کے ٹیکسٹائل انٹرپرائزز کے مابین جوائنٹ وینچر صنعت کو فروغ د ے گا،مشترکہ منصوبوں کے قیام کے بعد مصنوعات یورپ اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کو برآمد کی جا سکتی ہیں، وبائی امراض کے باوجود پاکستان کی چین برآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،رواں سال پاکستان کی چین کو برآمدات کی شرح 2 ارب ڈالر سے زائد ہے ، چین سے بڑے مینوفیکچررز کی پاکستان منتقلی انڈسٹری کی ترقی پرمثبت اثرات مرتب کرے گی۔ گوادر پرو کے مطابق رواں سال پاکستان کی چین کو برآمدات نے دو ہندسوں کی شاندارشرح نمو ظاہر کی ہے جو 2 ارب ڈالر سے اوپر ہے۔ ایف ٹی اے کے دوسرے مرحلے کے اثرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوںآ ہنی بھائیوں کے درمیان وبائی امراض کے باوجود چین کو پاکستان کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ابھی بھی اس میں اضافے کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔اے پی بی یو ایم اے ٹیکسٹائل ایس ایم ایز کی ایک بڑی ایسوسی ایشنز میں سے ایک ہے۔ اے پی بی یو ایم اے کے سینئر نائب صدر انجینئر بلال جمیل نے گوادر پرو کو انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان بڑی حد تک مقامی کپاس کی کاشت میں اضافہ کر رہا ہے ۔ بدقسمتی سے مقامی کپاس کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور اسے درآمد شدہ کپاس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ امید ہے کہ ہم چین کے تعاون سے زراعت کے شعبے میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ،ٹیکنالوجی اور مشینری کے حوالے سے دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لیں گے ۔انہوں نے کہا پاکستان کا ہوم ٹیکسٹائل سیکٹر بڑی حد تک ایس ایم ایز پر مشتمل ہے اور مقامی کاٹن یارن کی فراہمی پر براہ راست انحصار کرتا ہے جس کا دارومدار مقامی کپاس کی پیداوار پر ہے۔ بلال جمیل نے وضاحت کی کہ پاکستان کی کپاس کی پیداوار گزشتہ برسوں میں تیزی سے کم ہوئی ہے۔ کپاس کی صنعت کے مسابقتی فائدہ کے لیے کپاس کی پائیدار پیداوار ضروری ہے۔ پچھلے سال کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے روئی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوا اور اسکی طلب بھی بڑی جس نے مقامی ٹیکسٹائل سیکٹر کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس سلسلے میں انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان اور چین ایک ہی فیلڈ میں مشترکہ منصوبے قائم کریں تاکہ پاکستان کے ایس ایم ایز چین کی مہارت اور تجربے سے مکمل طور پر فائدہ اٹھا سکیں ، جو ٹیکسٹائل برآمدات ، ویلیو ایڈیشن اور جدید مشینری وغیرہ کے ساتھ پیداواری سہولیات میں سرمایہ کاری کو فروغ دے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین سے بڑے مینوفیکچررز کی پاکستان منتقلی انڈسٹری کی ترقی پرمثبت اثرات مرتب کرے گی ، لیکن اگر مزید چینی ایس ایم ایز بھی پاکستان آئیں تو دوطرفہ تجارت مزید مضبوط ہو گی۔ مشترکہ منصوبوں کے قیام کے بعد پیداواری لاگت کم ہو جاتی ہے اور مصنوعات یورپ اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کو برآمد کی جا سکتی ہیں۔ بلال جمیل نے مزید کہا کہ پاکستان کے مقابلے میں چین بہت بڑی معیشت ہے۔ ایس ایم ای جوائنٹ وینچرز پاک چین سرمایہ کاری اور کمپنیوں کے شیئر ہولڈنگ کے 55.45 فیصد پر مشتمل ہونا چاہیے۔ بلال جمیل کے مطابق حال ہی میں اے پی بی یو ایم اے وفد کو صدر ہاس میں پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ خصوصی طور پر ملنے کا اعزاز حاصل ہوا اس موقع پر یس ایم ای کے بنیادی مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر نے یہ بھی کہا کہ نئی ٹیکسٹائل پالیسی -2025 2020منظور کی جائے گی جس سے ایس ایم ایز کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔ سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زونز میں ٹیکسٹائل فیکٹریاں قائم کرنا مقامی اور چینی دونوں دوستوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ ہمارے پاس مقامی کپاس کی پیداوار اور گوادر پورٹ تک روڈ انفراسٹرکچر ہ موجود ہے ۔ ہم چینی دوستوں کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی ، انتظامی مہارت مقامی مینوفیکچررز کے پاس لائیں اور انہیں دستیاب وسائل سے تربیت دیں۔ بلال جمیل نے مزید کہا کہ ہم نے وزارت صنعت سے درخواست کی ہے کہ وہ ملتان کے آس پاس میں ایک انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کرے تاکہ چھوٹے مینوفیکچرنگ یونٹس کو ک اکھٹا کیا جاسکے جس میں تربیت ، ٹیکسٹائل پروسیسنگ (سائز ، ڈائی) اور سرٹیفیکیشن بین الاقوامی معیار کے مطابق ہو۔