سعودی تیل تنصیبات حملہ: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے لیکن اس حملے کے بعد سے اس کی تیل کی پیداوار میں 57 لاکھ بیرل یومیہ کی کمی واقع ہوگی۔سعودی کمپنی آرامکو کا کہنا تھا کہ تیل کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی فراہمی میں 5 فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ماہرین کا کہنا تھا کہ اس مقدار میں کمی کی وجہ سے طلب اور رسد میں فرق پیدا ہوجائے گا جو مجموعی طور پر تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔خیال رہے کہ یمن میں حوثیوں باغیوں کے خلاف جاری سعودی عرب کی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد کی کارروائیوں کے بعد متعدد مرتبہ حوثی باغیوں نے سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملے کیے لیکن اس مرتبہ ابقیق اور خریص پر کیے جانے والے حملے ملکی صنعت پر اثر انداز ہوئے۔ریاض، دنیا بھر میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو یومیہ 70 لاکھ بیرل تیل سپلائی کرتا ہے۔کولمبیا یونیورسٹی میں مرکز برائے عالمی توانائی پالیسی سے وابستہ جیسن بروڈوف کا کہنا تھا کہ ابقیق دنیا میں تیل سپلائی کرنے والی بہت اہم آئل فلیڈ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں ’جیسے کو تیسا‘ والے خطرے کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں بھی اضافے کا خطرہ ہے جس میں اب تک نمایاں اضافہ ہوا ہے۔سعودی عرب میں امریکی سفیر جان ابیزید کا کہنا تھا کہ ان حملوں سے عام لوگوں کی زندگی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے، یہ حملے قابل قبول نہیں ہیں، کبھی نہ کبھی ان سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوگا۔برطانیہ کے وزیر خارجہ اینڈریو موریسن نے حوثی باغیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ سعودی عرب میں شہری آبادی اور تجارتی انفرا اسٹرکچر پر حملے نہ کریں۔مرکز برائے عالمی پالیسی کے بانی ڈائریکٹر کامران بخاری کا کہنا تھا کہ ‘یہ سعودی حکام کے لیے نئی صورتحال ہے، انہوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ ان کی تیل کی تنصیبات کو فضا سے بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے‘۔دوسری جانب آرامکو کا کہنا تھا کہ حوثی باغیوں کے حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جبکہ تمام تر صورتحال پر قابو بھی پالیا گیا ہے۔خیال رہے کہ ان ڈرون حملوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو فون کرکے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کے تحفظ کے لیے مدد کی پیشکش کی تھی۔