امریکا کو زمینی حقائق کا نہیں پتا، اس لیے پاکستان پر اعتماد نہیں کرتا: وزیراعظم عمران خان

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے امریکی صدر جوبائیڈن نے فون نہیں کیا، وہ مصروف شخصیت ہیں، امریکا کے ساتھ نارمل تعلقات چاہتے ہیں، پاکستان سے عدم اعتماد کی وجہ زمینی حقائق سے امریکا کی قطعی لاعلمی ہے، 9/11کے بعد امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے پاکستان نے بہت کچھ بھگتا ہے، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا،خطے کا امن افغانستان کے عوام سے منسلک ہے، افغانستان کی صورتحال پریشان کن ہے،امریکا نے دہشت گردی سے لڑنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا تھا لیکن غیرمستحکم افغانستان کے نتیجے میں وہاں سے پھر دہشت گردی کا خطرہ جنم لے گا، دنیا افغان طالبان کو انسانی حقوق کے معاملے پر وقت دے، عالمی برادری انہیں تسلیم کرے۔ امریکی نشریاتی ادارے'' سی این این ''کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ افغان عوام نے 20سال میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہشمند ہے۔ افغانستان میں افراتفری اور پناہ گزینوں کے مسائل کا خدشہ ہے۔ افغانستان کو دہشتگردی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پریشان کن اور وہ اس وقت ایک تاریخی موڑ پر ہے، اگر وہاں 40سال بعد امن قائم ہوتا ہے اور طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول کے بعد ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے کام کرتے ہیں اور تمام دھڑوں کو ملاتے ہیں تو افغانستان میں 40سال بعد امن ہو سکتا ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ عمل ناکامی سے دوچار ہوتا ہے جس کے بارے میں ہمیں بہت زیادہ خدشات بھی لاحق ہیں، تو اس سے افرا تفری مچے گی سب سے بڑا انسانی بحران پیدا ہو گا، مہاجرین کا مسئلہ ہو گا، افغانستان غیرمستحکم ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے افغانستان میں آنے کا مقصد دہشت گردی اور عالمی دہشت گردوں سے لڑنا تھا لہذا غیرمستحکم افغانستان، مہاجرین کا بحران کے نتیجے میں افغانستان سے پھر دہشت گردی کا خطرہ جنم لے سکتا ہے۔عمران خان نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ یہاں سے افغانستان کی صورتحال کیا نکلے گی، ہم صرف امید اور دعا کر سکتے ہیں کہ وہاں 40سال بعد امن قائم ہو، طالبان نے کہا کہ وہ ایک جامع حکومت چاہتے ہیں، وہ اپنے خیالات کے مطابق خواتین کو حقوق دینا چاہتے ہیں، وہ انسانی حقوق کی فراہمی چاہتے ہیں، افغانستان کی خواتین بہت بہادر اور مضبوط ہیں، وقت دیا جائے وہ اپنے حقوق حاصل کر لیں گی۔ وہاں کی خواتین کو باہر سے کوئی حقوق نہیں دلوا سکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کو حقوق مل جائیں گے، طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ہے تو یہ سب چیزیں اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی برادری انہیں تسلیم کرے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو باہر سے بیٹھ کر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، ان کی ایک تاریخ ہے، افغانستان میں کسی بھی کٹھ پتلی حکومت کو عوام نے سپورٹ نہیں کیا لہذا یہاں بیٹھ کر یہ سوچنا کہ ہم انہیں کنٹرول کر سکتے ہیں، اس کے بجائے ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان کی موجودہ حکومت یہ محسوس کرتی ہے کہ عالمی معاونت اور امداد کے بغیر وہ اس بحران کو نہیں روک سکیں گے۔امریکی صدر جو بائیڈن سے گفتگو کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھاکہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد سے امریکی صدر سے بات نہیں ہوئی جبکہ جوبائیڈن نیفون نہیں کیا، وہ مصروف شخصیت ہیں۔تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھاکہ امریکا کے ساتھ نارمل تعلقات چاہتے ہیں، پاکستان سے عدم اعتماد کی وجہ زمینی حقائق سے امریکا کی قطعی لاعلمی ہے۔انہوں نے کہا کہ 9/11کے بعد امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے پاکستان نے بہت کچھ بھگتا ہے، ایک وقت تھا کہ 50شدت پسند گروپ پاکستان پر حملہ کررہے تھے، 80کی دہائی میں پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا، ہم نے مجاہدین کو تربیت دی تاکہ وہ افغانستان میں جہاد کر سکیں ان میں مجاہدین میں القاعدہ اور طالبان شامل تھے اور اس وقت یہ ایک مقدس کام تصور کیا جاتا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ 9/11کے بعد امریکا کو افغانستان میں ہماری ضرورت تھی، جارج بش نے پاکستان سے مدد طلب کی اور اس وقت کہا تھا کہ ہم پاکستان کو دوبارہ تنہا نہیں چھوڑیں گے، پاکستان امریکا کی جنگ کا حصہ بن گیا، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا۔