سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس کا فیصلہ آنے تک وزیراعظم کے خلاف این آراو عملدرآمد کا حکم نامہ جاری نہ کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کيس کی سماعت جسٹس ناصر الملک کی سربراہی ميں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے آغاز پراعتزاز احسن نے توہین عدالت کیس کا فیصلہ آنے تک این آر او عملدرآمد کیس میں نیا حکم نامہ جاری نہ کرنے کی استدعا کی جسے مسترد کردیا گیا۔ وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ جب تک توہین عدالت کیس میں ان کے دلائل مکمل نہیں ہوجاتےعدالت حکم کا اجرا زيرالتوا رکھے. اعتزاز احسن نے کہاکہ نئے حکم نامے سے توہین عدالت کیس میں ان کی محنت رائیگاں جائے گی، حکم نامے کو سنسنی خیز نہ بنایا جائے۔ اعتزاز احسن نے دلائل دیئے کہ وزیر اعظم کیخلاف توہین عدالت میں شکایت کنندہ کوئی نہیں،جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کیس میں عدالت کوشکایت کنندہ بنناپڑتاہے ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جج اپنےمفادکےمقدمےمیں بینچ کاحصہ نہیں بن سکتا۔جسٹس سرمد جلال عثمانی نے اعتزازاحسن کو کہا کہ آپ ججز کا مفاد ثابت کریں، یہ ازخود نوٹس نہیں،بلکہ عملدرآمد بینچ کی کارروائی ہے ،آپ جذباتی شکووں سےکارروائی کارخ نہیں بدل سکتے۔ اعتزازاحسن نے بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ٹی وی چینل دیکھیں گےتوفیصلہ دینگے ،آپ میڈیا کےحوالے دیتے نہیں بلکہ لیتےہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیئے کہ نوٹس جاری کرنےسےجج متعصب نہیں ہوجاتے۔ عدالت اپنےفیصلےپرکس طرح عملدرآمد کروائے؟ اس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عملدرآمد کا طریقہ کار آرٹیکل ایک سو ستاسی میں درج ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ این آر او فیصلے پر عملدرآمد قومی مفاد میں ہے۔ اس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ صدر کی تذلیل میں کونسا قومی مفاد ہے۔ سپریم کورٹ نے مقدمے کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی، وزیراعظم کے وکیل کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔