سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات نمٹاتے ہوئے ملزم کو 8 سال بعد بری کردیا۔

سپریم کورٹ نے قتل کے چار مقدمات نمٹاتے ہوئے ایک ملزم کو آٹھ سال بعد بری جبکہ دوملزم کی بریت کی درخواست خارج جبکہ ایک ملزم کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کر دیا۔ پہلے مقدمے میں ملزم طاہر حسین اور دو شریک ملزمان نے راولپنڈی کے آر اے بازار میں اختر جاوید کو قتل کر دیا تھا۔ ملزم اختر جاوید اور اس کی بیوی روبینہ کوثر کے درمیان تنازعہ پر خاتون کے بھائیوں طاہر حسین اور کامران جاوید نے مل کر اختر جاوید کو قتل کیا تھا۔ اس کیس میں روبینہ کوثر کو بھی شریک ملزم بنایا گیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کے روبرو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت ان جھوٹے گواہان کو بغیر کسی مقدمے کے قید کر دے جو جھوٹی گواہی دے کر کسی کو قتل کے مقدمے میں سزا دلوانا چاہتے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پنجاب کی روایت بن گئی ہے کہ جب قاتل نامعلوم ہو تو بیوی کو قتل میں ملوث کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ جائیداد میں حصہ دار نہ بن سکے اور مقدمہ میں جھوٹے گواہان بنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب جب جھوٹے گواہ پیش ہونگے اصل ملزمان بری ہوتے جائیں گے۔ یہ بات اب ہماری معاشرے کو سمجھ لینی چاہئے کہ سچ کے بغیر نظام عدل قائم نہیں ہو سکتا۔ نظام عدل اللہ تعالیٰ کا نظام ہے اور اس نظام میں فیصلہ شہادتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں جرم ثابت ہو جائے تو عدالتیں سزائے موت سنا دیتی ہیں۔ جرم ثابت نہ ہو تو عمرقید کی سزا دیدی جاتی ہے۔ ملزمان کو بری کرنے کا حوصلہ کسی میں نہیں۔ عدالت نے ملزم طاہر حسین کی اپیل منظور کرتے ہوئے اس کو سنائی گئی تمام سزائیں کالعدم قرار دیدیں اور فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ پولیس 99 فیصد مقدمات میں اصل ملزم تک پہنچ جاتی ہے لیکن شواہد اکٹھے کرنے میں غفلت برتی جاتی ہے جب شواہد نہیں ہونگے تو فیصلہ کس بنیاد پر ہو گا۔ جھوٹے شواہد اور گواہان پر اصل ملزمان کو بھی سزا نہیں ہو سکتی۔ واضح رہے کہ ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی جس کو ہائیکورٹ نے عمرقید میں تبدیل کر دیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے بری کر دیا۔ دوسرے مقدمہ میں عدالت نے ملزم شاہد حسین کی بریت کے لئے دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ شاہد حسین نے 2 شریک ملزمان کے ساتھ مل کر 2009ء میں خادم حسین کو سرگودھا میں قتل کیا تھا۔ زمین کے تنازعہ پر ہونے والے اس قتل کیس میں ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت سنائی تھی اور ہائیکورٹ نے سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کر دیا تھا۔ تیسرے مقدمہ میں عدالت نے صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں سیٹھ اقبال اکبر کو قتل کرنے والے ملزم محمد سلیم آرائیں کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کر دیا۔ عدالت نے سزا میں کمی شک کا فائدہ دے کر کی۔ ملزم نے ساڑھے 3 لاکھ روپے کے تنازعہ پر سیٹھ اقبال کو قتل جبکہ جواد نامی شخص کو زخمی کر دیا تھا۔ چوتھے مقدمے میں عدالت نے ملزم غریب نواز کی بریت کیخلاف دائر درخواست خارج کر دی۔ ملزم پر پشاور میں اسد خان نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اس مقدمے کے دو شریک ملزمان پہلے ہی بری ہو چکے ہیں۔