مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت 23 جون تک ملتوی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اوران کے شوہر کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت23جون تک ملتوی کردی ہے جبکہ عدالتی سوالات کاجواب دیتے ہوئے مریم نواز کے وکیل کا کہنا تھاکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کے بچے خودمختار ہیں،نیب کے تفتیشی افسراس بات کو مانتے ہیں کہ نواز شریف نے کہا کہ کاروباری معاملات ان کے والد چلاتے تھے ،بہت سارے کمپنیوں اور دیگر معاملات میں نواز شریف کا کہیں نام نہیں، نیب کے مطابق وقوعہ 1993 کا ہے جبکہ مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ 2006 کی ہے، قتل میں شامل ہونا الگ بات ہے اور لاش ٹھکانے لگانا الگ بات ہے، 1993میں ہوئے جرم میں اعانت 2006 میں کیسے کی جا سکتی ہے؟فئیر ٹرائل جیسی چیزیں انسان نے تہذیب سے سیکھی ہیں، اللہ نے تو آدم کی تخلیق کے وقت شیطان کو بھی حق سماعت دیا، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے مقدمات کی سماعت کا آغازکیا تو مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی جانب سے امجد پرویز اورنیب کی جانب سے سپیشل پراسیکیوٹر عثمان غنی چیمہ اور ڈپٹی پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ 18 جنوری 2018 کو آٹھ گواہان کا بیان قلمبند کرایا گیا، عدالت کو گزشتہ سماعت پر بتایا تھا کہ انہوں نے مکس اور کنفیوژ چارج فریم سب کے خلاف نہیں کیا، سب کے خلاف چارج فریم کرنے کی بجائے نیب نے اپنا کیس تبدیل کیا،اوریجنل ریفرنس میں نیب نے یہ نہیں بتایا کہ کون بے نامی دار ہے کون اصل مالک ہے، یہاں بتایا گیا کہ پراپرٹی کا اصل مالک محمد نواز شریف ہے اور حسین نواز کے نام پر یہ پراپرٹی ہے،ملزم نمبر دو کو اس کیس میں ٹرسٹی بنایا گیا،اس پر عدالت نے سوال کیا کہ کیااصل مالک محمد نواز شریف کو بنایا اور کہا کہ پراپرٹی حسین نواز کے نام ہے ؟امجد پرویز نے کہاکہ ضمنی ریفرنس میں نیب کا موقف عبوری ر یفرنس سے مختلف تھا، ضمنی ریفرنس دائر ہونے کے بعد ہم نے اعتراض اٹھایا کہ ضمنی ریفرنس دائر ہونے کے بعد دوبارہ فرد جرم عائد کی جائے لیکن ہماری استدعا نہیں مانی گئی اور اسی فرد جرم پر کیس چلایا گیانیب نے کنفیوژ اور مکس چارج فریم کیا، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ جو چارج ہم نے پڑھا اس میں ٹرسٹ ڈیڈ کا تو کوئی ذکر نہیں ہے۔ مریم نواز کے وکیل نے جواب دیا کہ نہیں جو چارج جمع ہے اس میں ٹرسٹ ڈیڈ کا ذکر کیا گیا ہے، ریفرنس سے لیکر چارج فریم تک تفتیش کو مس لیڈ کیا گیا،سپریم کورٹ نے سوالات اٹھائے تھے اور اس پر ڈائرکشن دی تھی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ جس وقت کی آپ بات کررہے ہیں اس وقت تو تفتیش ہی نہیں ہوئی تھی ۔مریم نواز کے وکیل کا کہنا تھاکہ سربراہ پانامہ جے آئی ٹی واجد ضیا سے پوچھوں گا کہ میرے خلاف کسی گواہ کا 164 کا بیان تھامجھے صرف زبانی باتوں پر شامل تفتیش کیا گیا۔مجھے کبھی کسی نے اصل دستاویزات نہیں دیں اور نہ کبھی ایسے دستاویزات تھے، ریفرنس میں صرف میری کردار کشی کی گئی ،ہم نے دیکھنا ہوگا کہ اس ٹرسٹ ڈیڈ کی قانونی حیثیت کیا ہے ؟ٹرسٹ ڈیڈ کی چار سے پانچ ماہ دورانیہ کی وجہ سے میں اس عدالت کے سامنے کھڑا ہوں، جے آئی ٹی نے خود کہا کہ مریم نواز کوڈیڈکے مالک کا پتہ ہی نہیں تھااس ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم نواز، کیپٹن صفدر، وقار احمد اور جرمی فری مین باکس کے دستخط ہیں، سپریم کورٹ نے پانامہ جے آئی ٹی کے دوارن اس سولیسٹر سے سوال پوچھنے کا کہا تھا، مریم نوازکے وکیل کا کہنا تھاکہ نیب نے رابرٹ اور فرم لا کے مالک کو شامل تفتیش کیا، نیب نے دو لوگوں کو شامل تفتیش کیا مگر اس جرمی فری مین کو شامل تفتیش نہیں کیا، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ نیب نے تو کہا کہ ملزمان کی جانب سے اصل مجرم کو بچانے کے لیے جعلی دستاویزات دیئے گئے، مریم نواز کے وکیل کا کہنا تھاکہ جس کیس میں مریم نوازکو سزا ہوئی وہ ٹرسٹ ڈیڈ جون 2006 کا ہے، ایک دستاویز 2006کی ہے تو اصل ملزم کو بچانے کی کوشش کیسے کی گئی، جسٹس محسن کیانی نے کہاکہ آپ نے کبھی اپنا مقصد بتایا کہ کیااس ٹرسٹ ڈیڈ کو اسی لئے بنایا ؟وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ اس ٹرسٹ ڈیڈ کو کس مقصد کے لیے بنایا گیا،حسین نواز کی دو بیویاں ہیں کل کے لیے اگر کچھ ہوجاتا ہے تو مسائل نہ ہوں مگر جب تک وہ زندہ ہے حسین نواز ہی مالک ہونگے،جسٹس کیانی نے سوال کیاکہ اس ٹرسٹ ڈیڈ کا اصل مالک کو کیا فائدہ تھا ؟اصل ملزم سے کبھی اپنے 342 کے بیان میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کا سوال کیا گیا ؟، مریم نواز کے وکیل نے موقف اپنایا کہ میاں نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کے بچے خودمختار ہیں، نیب کے تفتیشی اس بات کو مانتے ہیں کہ نواز شریف نے کہا کہ کاروباری معاملات ان کے والد چلاتے تھے ،بہت سارے کمپینوں اور دیگر معاملات میں نواز شریف کا کہیں نام نہیں، ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہاکہ نیب کے مطابق وقوعہ 1993 کا ہے ، مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ 2006 کی ہے، قتل میں شامل ہونا الگ بات لاش ٹھکانے لگانا الگ بات ہے، 1993میں ہوئے جرم میں اعانت 2006 میں کیسے کی جا سکتی ہے؟ امجد پرویزکا کہنا تھاکہ فئیر ٹرائل جیسی چیزیں انسان نے تہذیب سے سیکھی ہیں، اللہ نے تو آدم کی تخلیق کے وقت شیطان کو بھی حق سماعت دیا، جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیاکہ آپ ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ کھڑے ہیں ؟ آپ اس دستاویز پر جا کر بار ثبوت خود پر لے رہے ہیں؟ یا آپ اسی دستاویز سے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کیس عدم شواہد کا ہے؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ اسی دستاویز سے دکھاں گا نیب بار ثبوت منتقل کرنے میں ناکام رہا ۔جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ رابرٹ ریڈلے کی تعلیمی قابلیت کیا ہے ؟، امجد پرویز کا کہنا تھاکہ رابرٹ ریڈلے فونٹ ایکسپرٹ ہے، عدالت نے مریم نوا زکے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ نے تفتیشی سے ایسا کوئی سوال پوچھا کہ بینفیشری کو کیا فائدہ ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے تو پہلے کہا تھا کہ جب تک حسین نواز زندہ ہے ملکیت اسی کے پاس ہے،یہ پراپرٹی منروا لمیٹڈ کمپنی کے نام سے رجسٹرڈ ہے، اس پراپرٹی کا ایک شئیر سرٹیفکیٹ نیسکول اینڈ ایک نیلسن کمپنی کے ہیں، نیب نے برٹش ورجن آئرلینڈ کے ان کمپنیوں میں کسی کو شامل تفتیش نہیں کیا،عدالت نے وکیل سے کہاکہ وہ ان کمپنیوں کی شامل تفتیش کو چھوڑیں مریم نواز کی حد تک رہیں ۔وکیل نے کہاکہ مریم نواز کبھی پبلک آفس ہولڈر رہیں،عدالت نے سوال کیا کہ کیا پبلک آفس ہولڈر کو نان پبلک آفس ہولڈر کے ساتھ شامل تفتیش نہیں کرسکتے؟ امجد پرویز کا کہنا تھاکہ نیب حکام ریفرنس میں کہتے ہیں کہ اصل مالک نواز شریف ہے جبکہ فیصلے میں مریم نواز کومالک کہا جارہا ہے،اس دوران مریم نواز کے وکیل عرفان قادرنے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کے ٹویٹس بارے عدالت سے شکایت کرتے ہوئے کہاکہ یہاں کچھ دوست موجود ہیں انہوں نے ٹویٹ کیا کہ مریم نواز تسبیح پڑھ کر عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہی ہیں اس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھاکہ میڈیا سے درخواست ہے کہ دوران سماعت ٹویٹ نہ کریں کیس کی سماعت کے بعد جو کرنا ہے کریں ۔ مریم نوازکے وکیل امجد پرویز نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ مریم نوازکو سزا بنیفیشری ہونے پر نہیں بلکہ فوکس کرکے کی گئی ہے۔جعلی دستاویزات پر نہ وقار احمد اور نہ ہی جرمی فری مین کو شامل تفتیش کیا ،عدالت کا کہنا تھاکہ اگر آپ جعلی دستاویزات جمع کراتے تو آپ بھی ملزم ہونگے،امجد پرویز کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا نے اپنے کزن کو ہائیر کیا کہ لندن جاکر جرمی فری مین سے خط کا پوچھے،اس دستاویز کو پراسیکوشن میں شواہد کے طور پر پیش کیا گیا،عدالت کا کہنا تھاکہ جرمی فری مین کو اگر گواہ نہیں بنایا تو اسکا تو فائدہ پہنچتا ہے امجد پرویز نے کہاکہ کیبلری فونٹ 2005 میں موجود تھا اور انہوں نے خود استعمال کیا تو کوئی اور کیسے استعمال نہیں کرسکتا تھا، جسٹس محسن اخترکیانی نے امجد پرویزسے سوال کیاکہ کیا آپ کہتے ہیں رابرٹ ریڈلے مین ایماندار شخص ہے؟وکیل امجد پرویز کا کہنا تھاکہ کیلبری فونٹ کی وجہ سے چھ سالوں سے میری کردار کشی کی گئی،وقت ختم ہونے پرعدالت نے کیس کی سماعت 23 جون تک کے لئے ملتوی کردی ہے اور آئندہ سماعت پر بھی مریم نواز کے وکیل امجد پرویز دلائل جاری رکھیں گے۔