بجلی گھروں کے گردشی قرضے بڑھ گئے۔
بجلی گھروں کے گردشی قرضے (سرکلرڈیٹ) بڑھ جانے کے باعث تیل فراہم کرنے والی کمپنیاں واجبات کی ادائیگی نہیں پا رہیں، جس سے پہلی بار تیل کی ترسیل کا پورا نظام برے طریقے سے متاثر ہوا، تیل سے بھرے ہوئے بحری جہاز بندرگاہوں پر کھڑے ہیں جبکہ ریل گاڑیاں اور ٹینکرز مختلف مقامات پر پھنس گئے ہیں۔بجلی کی کمپنیوں کی جانب سے تیل فراہم کرنے والے اداروں کو ادائیگیاں نہ کرنے کی وجہ سے پورا نظام متاثر ہوا ہے۔جب کہ دوسری جانب تیل کی تقسیم کار کمپنیوں کے پاس صرف 40 دن کے استعمال کا فرنس آئل موجود ہونے کا انکشاف بھی سامنے آیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ تیل سے بھرے ہوئے 15 سے زائد آئل ٹینکرز بندرگاہوں پر بجلی گھروں کی جانب سے ادائیگیاں ملنے یا پھراپنی مصنوعات کے ساتھ واپس آنے کے انتظار میں کھڑے ہوئے ہیں۔ادھر آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) کے ذرائع نے بتایا کہ ملک میں صرف 8 لاکھ ٹن فرنس آئلکا اسٹاک موجود ہے، جو ایک لحاظ سے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ اسٹاک ہے ،مگر یہ اسٹاک بھی زیادہ سے زیادہ صرف 40 دن تک چل سکتا ہے۔او سی اے سی کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو ہر حکومتی فورم اور خصوصی طور پر وزارت پانی و بجلی کے سامنے اٹھایا گیا، مگر کسی کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا۔ریفائنریز سے منسلک ایک عہدیدار کے مطابق اس وقت ریفائنریزاور تیل پیدا کرنے والی کمپنیز میں کچھ اسٹاک موجود ہے،مگر مقامی ریفائنریز کی جانب سے اپنی پیداوار کو نیچے لانے کی وجہ سے پیٹرول، ڈیزل اور جیٹ فیول کی مصنوعات میں قلت ہوگی۔اہلکار کا کہنا تھا کہ اگر صورتحال پر قابو نہیں پایا گیا تو ریفائنریز بند ہوجائیں گی، کیوں کہ فرنس آئل کے بغیر پیٹرول کی پیداوار کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے دوسری جانب آزاد بجلی گھروں نے دعویٰ کیا ہے کہ تیل کمپنیوں کے قرضے 414 ارب روپے سے بھی بڑھ چکے ہیں، جس میں سے 270 ارب روپے تو صرف پی ایس او کے ہیں۔وزات پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور وزات خزانہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔