سکون کے لیے مریضوں کو جان سے مارنے والی نرس کو عمرقید کی سزا
جرمنی میں ایک ہسپتال کے مرد نرس کو مریضوں کو بغیر نسخے کے سکون آور ادویات دے کرموت کے گھاٹ اتارنے کے الزام میں عمرقید کی سزا سنائی گئی ہے۔جرمنی کے شہر میونخ کے ایک اسپتال کے ریکوری روم میں اپنے کام کے دوران سکون کی تلاش میں ایک مرد نرس نے اپنے مریضوں کو سکون آور ادویات کے انجیکشن لگانے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جس سے ان میں سے کچھ ہلاک ہو گئے، جبکہ بعض مریضوں کو بچالیا گیا۔
27 سالہ نرس کو دو مریضوں کو بغیر نسخے کے ادویات فراہم کرنے کے بعد قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ملزم نرس نے مریضوں کو یہ دوائی اس لیے دی تاکہ وہ تکلیف کی وجہ سے پریشان نہ کریں۔جنوبی جرمنی میں میونخ کی ایک عدالت کے ترجمان نے بتایا کہ نرس جس کی شناخت ماریو گائے کے نام سے ہوئی ہے کو مریضوں کے قتل کی کوشش کے چھ الزامات میں سزا سنائی گئی ہے۔ماریو گی نے اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران اعتراف کیا کہ اس نے میونخ کے ایک ہسپتال میں ریکوری روم میں کام کرتے ہوئے مریضوں کو سکون آور ادویات اور دیگر دوائیں لگائیں۔
اس نے عدالت کو بتایا کہ "میں خاموشی سے کام کرنا چاہتا تھا اور پریشان نہیں ہونا چاہتا تھا"۔نرس کے شکار ہونے والوں میں جرمن مفکر اور مصنف ہنس میگنس اینزنسبرگر بھی شامل تھے جو نومبر 2020 میں جان سے مارنے کی تین کوششوں میں بچ گئے تھے۔تاہم میگنس اینزنسبرگر دو سال بعد 93 سال کی عمر میں قدرتی وجوہات کی بناء پر انتقال کر گئے تھے۔ماریو گی کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دو مریضوں کی عمریں 80 اور 89 سال ہیں۔استغاثہ نے وضاحت کی کہ ماریو گی مریضوں کو دوائیں دے رہا تھا کیونکہ وہ کام کے دوران پریشان نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس کیس نے جرمن نرس نیلز ہوگل کے کیس کی یاد تازہ کردی ہے۔اسے 2019 میں 85 مریضوں کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ہوگل ان مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی۔