سپریم کورٹ نے ریکوڈک کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی، یہ بہت اہم کیس ہے اسے جلد منتقی انجام تک پہنچانا ہے۔ چیف جسٹس
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ریکوڈک گولڈ مائنز کیس کی سماعت کی ۔۔ دوران سماعت درخواست گذار کے وکیل رضا کاظم نے اپنے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک کا معاہدہ اور اس کی سرمایہ کاری مشکوک، داغدار اور کرپشن سے بھری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلین ہائی کمشنر نے حکومت پاکستان کو جواب دیا ہے کہ ریکوڈک کا معاہدہ دو حکومتوں کے درمیان نہیں بلکہ دو کمپنیوں کے درمیان تھا۔ آسٹریلوی حکام کے اس جواب نے ہمیں بہت پریشان کر دیا ہے۔ اور اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ اس سارے معاملے کو موثر انداز میں کیسے ختم کرتی ہے۔ رضا کاظم نے کہا کہ عدلیہ کو اب یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ معاملہ عالمی چیمبرآف کامرس کے ثالثی فورم میں قابل سماعت ہے یا نہیں۔۔؟؟ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے کہا کہ عالمی ثالثی فورم نے واضح طور پر پوچھا ہے کہ اس معاہدے کو ختم کرنے کے بعد بلوچستان حکومت کے نقصان کی تلافی کون کرے گا ۔۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ معاہدے شفاف ہوتے تو ٹی سی سی کمپنی کیوں اپنا حق بتاتی جبکہ اس کی فائلیں بھی آگے فروخت کی گئی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ پرکوئی بھی دباؤ نہیں اورہمیں اس کیس کی کوئی جلدی بھی نہیں ہے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان اور عالمی ثالثی فورم میں پاکستان کے وکیل کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائرکی گئی دستاویزات تمام فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مقدمے کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔۔