وزیر اعظم نوازشریف نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ سےآرٹیکل دوسواڑتالیس کےتحت استثنیٰ مانگ لیا
پاناما کیس کی سماعت میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل کو کہا کہ گزشتہ روز آپ نے پارلیمانی کارروائی عدالت میں چیلنج نہ ہوسکنے کا ذکر کیا, عدالت قرار دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریرارکان کیخلاف بطور ثبوت استعمال کیا جا سکتاہے, برطانوی عدالت ایک فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ کرپشن کو پارلیمانی استثنٰی حاصل نہیں, آئین کے آرٹیکل اڑسٹھ کے تحت ججز کا کنڈکٹ بھی پارلمینٹ میں زیر بحث نہیں آتا۔ وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں ججز کا کنڈکٹ کی بات ہو تو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا, آرٹیکل اڑسٹھ اور دوسو چار ججز کنڈکٹ پر بات کرنے سے روکتے ہیں۔ صدر وزیراعظم اور گورنرز کو آئینی استثنی حاصل ہے, وزیر اعظم کو استثنی امور مملکت چلانے پر ہوتا ہے, مخدوم علی خان کی جانب سے چوہدری ظہور الٰہی کیس کا حوالہ بھی دیا گیا جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل دو سو اڑتالیس کے تحت وزیراعظم کو نہیں ان کے آفس کو استثنیٰ حاصل ہے, ذوالفقار علی بھٹو بھی استثنیٰ مانگ چکے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت پارلیمانی کارروائی کا جائزہ لے سکتی ہے۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ تقریر کو بطور شہادت پیش نہیں کیا جاسکتا۔ وزیراعظم پارلیمنٹ سے باہر تقریر کریں تو استثنی مانگیں گے, جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم پر الزام ہے کہ انکی تقاریر دستاویزات اور بچوں کے بیانات میں فرق ہے, مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ تضاد کے باوجود وزیر اعظم کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ صرف پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ قوم سے کئے گئے خطاب کا بھی سوال ہے۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ دبئی فیکٹری سے نواز شریف کا کوئی تعلق نہیں تھا, نواز شریف کیخلاف ویلتھ ٹیکس عدم ادائیگی کا کوئی معاملہ زیر التو نہیں, قانون منسوخ ہوئے 14 سال گزر گئے اور اس پر نااہلی مانگی جارہی ہے, عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی