نیب ترامیم: عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی احتساب کا مؤثر قانون چاہتے ہوں گے، دونوں فریقین مل کر بہترین قانون بنا سکتے ہیں، توقع ہے دونوں کی جانب سے دانشمندی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صرف اتنا کہہ دیں کہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا تو 90 فیصد کیس ختم ہوجائے گا، ترامیم کے ماضی سے اطلاق کے حوالے سے قانون واضح ہے، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کو اسی لیے ہدایات لینے کا کہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ توقع ہے حکومت کھلے ذہن کے ساتھ معاملے کا جائزہ لے گی، سپریم کورٹ کئی مرتبہ آبزرویشن دے چکی ہے کہ نیب ترامیم کیس پارلیمان میں حل ہونا چاہیے، بادی النظر میں عمران خان کا کیس 184/3 کے زمرے میں آتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا مناسب نہیں ہوگا کہ پی ٹی آئی اسمبلی میں ترمیمی بل لائے جس پر بحث ہو، اسمبلی میں بحث سے ممکن ہے کوئی اچھی چیز سامنے آجائے اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اسمبلی میں واپس جانا یا نہ جانا سیاسی فیصلہ ہے۔