بھارت:فتح پور کے گائوں میں گئو کشی کے نام پر توڑ پھوڑ،مدرسہ نذرآتش
بھارت کی ریاست اترپردیش کے ضلع فتح پور کے گائوں بہٹا میں انتہا پسند ہندوئو ں نے گئو کشی کے نام پر علاقے میں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کرنے کے بعد مسلمانوں کے ایک مدرسے کو نذرآتش بھی کردیا جس سے علاقے میں سخت کشیدگی پھیل گئی۔ حسب روایت پولیس نے روایتی تساہلی اور چشم پوشی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیاں کرنے کے بعد فرار ہوگئے۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ نے فتح پور سے موصولہ اطلاعات کی بنیاد پر کہا ہے کہ گائوں میں واقع تالاب کے کنارے سے گوشت کا ایک پیکٹ برآمد ہوا تھا جسے جواز بنا کر ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ مجرمان نے پرتشدد کارروائیوں کے لیے لاٹھیوں اور ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کرنے کے بعد مدرسے کو نذرآتش کردیا، شدید ہنگامہ آرائی کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس جائے وقوع پر پہنچی اور اس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کیا۔ واقعہ کے بعد علاقے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی اور شرپسند مظاہرین کی گرفتاری کے لیے کوششوں کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں جو کچھ بھی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ ہوئی ہے اس کی ذمہ دار علاقہ پولیس ہے کیونکہ اس نے بروقت پہنچ کرنہ مداخلت کی اور نہ ہی کوئی کارروائی کی۔بھارتی ذرائع ابلاغ کی اس سلسلے میں رپورٹ ہے کہ علاقے میں کشیدگی ایک دن پہلے اس وقت پھیلی تھی جب تالاب کے کنارے سے کچھ خواتین کو گوشت کا ایک پیکٹ ملا تھا۔مقامی میڈیا کے مطابق گوشت کا پیکٹ ملنے کی اطلاع آنا فانا قرب و جوار کے علاقوں میں بھی پھیل گئی تھی حالانکہ کچھ صلح جو افراد نے ملنے والے گوشت کے پیکٹ کو زمین میں دفنا کرصورتحال بہتر کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ رائیگاں گئی کیونکہ تنا بہت بڑھ چکا تھا، حیرت انگیز طور پرعلاقے میں کشیدگی پھیلنے کی اطلاع ملنے کے باوجود پولیس نے کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور نتیجتاً بڑھتا ہوا تنا ملحقہ علاقوں ادرولی، شہباز پور،کھنجہل پور، فرید پور، دھن مئو اور گوری تک کو اپنی لپیٹ میں لے گیا جس کے بعد ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کے واقعات رونما ہوئے۔بھارت میں جب سے انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت دوسری مرتبہ برسراقتدار آئی ہے اس وقت سے ہجومی تشدد (موب لنچنگ)کے ذریعے مسلمانوں کو انسانیت سوز بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا۔وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے چونکہ انتہا پسندوں کے خلاف کسی قسم کی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے اس لیے مجرمان کے حوصلے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ وہ مسلمان کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔