ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث ،وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کا معاملہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افرادکیس میں قراردیا ہے کہ بادی النظر میں وفاقی حکومت لاپتہ افراد کیس میں عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کر کے ناکام رہی ہے یہ ظاہر ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کا معاملہ سنجیدگی سے نہیں لیا، وزارت داخلہ 25 مئی کے اس عدالت کے حکم پر عمل درآمد یقینی بنائے،اس کیس میں مزید کوئی التوا نہیں دیا جائے گا عدالت نے ہدایت کی ہے کہ فریقین آئندہ سماعت پر دلائل دیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یا تو یہ بتا دیں کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے، یا تو وزیراعظم کہہ دے کہ وہ بے بس ہیں،اگر وزیراعظم بے بس نہیں ہے تو آئین انہیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے،وزیراعظم کو پھر اس عدالت کے سامنے یہ کہہ دینا چاہیے تاکہ عدالت کسی کے خلاف کارروائی کرے،اس بات سے اختلاف نہیں کہ لوگ خود چلے جاتے ہیں لیکن ریاست کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بات بھی درست ہے کہ ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے، اس ملک میں ماورائے عدالت قتل کیے جاتے رہے ہیں، پولیس کرتی رہی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں صحافی مدثر نارواور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے دائر مقدمات کی سماعت ہوئی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ امتیاز احمد نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد سے متعلق کمیٹی تشکیل دی ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کو کمیٹیوں میں نہ الجھائیں بتایا جائے وفاقی حکومت نے اب تک کیا ایکشن لیا؟آج بھی لوگ غائب ہورہے ہیں،سوال یہ ہے لاپتہ افراد کہاں ہیں؟عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھنے کی ہدایت کی ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ امتیاز نے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھا جس میں کہا گیا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزرائے اعظم کو نوٹس جاری کیا گیا تھا ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آئینی عدالت کے سامنے بہت ہی سنجیدہ نوعیت کا کیس زیر سماعت ہے، عدالتی حکم پر کیا عملدرآمد ہوا ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں وزیر قانون بھی شامل ہیں،چیف جسٹس نے سوال کیاکہ کیا آپ نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کیا؟عدالت اپنے ایک ایک حکم پر عملدرآمد چاہتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ حکم پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو موجودہ اور سابقہ وزرائے داخلہ پیش ہوں، وزرائے داخلہ کدھر ہیں؟ کیا یہ عدالت کے حکم پر عملدرآمد ہو رہا ہے؟ کیا یہ اچھا لگے گا کہ یہ عدالت چیف ایگزیکٹو کو سمن کرے؟ تمام حکومتیں آئین اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہی ہیں، یہ معاملہ وفاقی حکومت اور تمام سیاسی قیادت کیلئے ترجیح ہونا چاہیے تھا، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کرینگے کہ مسنگ پرسنز کی بازیابی کیلئے کیا کوششیں کی جا رہی ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ مسنگ پرسنز کی بازیابی کیلئے کوئی کوششیں نہیں کی جا رہیں، چیف عدالت نے حکم دیا تھا کہ مسنگ پرسنز کی مشکلات عوام تک پہنچانے کیلئے اقدامات کیے جائیں، کیا وفاقی حکومت نے پیمرا کو ڈائریکشن جاری کی ہے؟ وزارت اطلاعات کے نمائندے نے بتایا کہ ہم نے براہ راست پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کو لکھ دیا تھا کہ عدالتی حکم پر عمل کریں، چیف جسٹس نے سوال کیاکہ تو اس کے بعد مسنگ پرسنز سے متعلق کتنے پروگرامز ہوئے ہیں؟ اس عدالت کے ساتھ گیم نہ کھیلیں، کس چیز کی گھبراہٹ ہے؟درخواست گزار کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم نے کہاکہ عدالت کا فیصلہ بہت واضح تھا، میں لاپتہ افراد کی بات کرتا ہوں اس لیے مجھے ٹی وی پر آنے کی اجازت نہیں، تمام ہائیکورٹس لاپتہ افراد سے متعلق احکامات جاری کررہی ہیں، یہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں، عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہورہا، اس دوران چیئر پرسن ڈیفنس آف ہیومن رائٹس آمنہ جنجوعہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوگئیں اور انہوں نے موقف اپنایاکہ عدالت نے پرویز مشرف سے لیکر تمام وزرائے اعظم کو ذمہ دار قرار دیا تھا، ان محرمیوں کے تمام وزرا ئے اعظم ذمہ دار ہیں، آج تک کسی متاثرہ فیملی کو معاوضہ نہیں دیا گیا،چار سو لاپتہ افراد کو پشاور جیل میں منتقل کردیا گیا ہے،ان افراد کو حراساں کیا جارہا ہے، آمنہ جنجوعہ کا کہنا تھاکہ کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں ہمیں سنا جائے،چیف جسٹس نے کہاکہ وہ کمیٹی وفاقی کابینہ نے تشکیل دی ہے،کمیٹی تشکیل دینے سے کم از کم کوئی قدم تو اٹھایا گیا ہے، اگرچہ یہ اقدام بھی کافی نہیں مگر پھر بھی کچھ تو ہوا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے عدالت کس کو ذمہ دار ٹھہرائے؟سابق چیف ایگزیکٹو کو نوٹسز کس نے بھیجنے تھے، کس نے سابق چیف ایگزیکٹیوز سے بیان حلفی لینا تھا، عدالت جن کے دور میں کوئی لاپتہ ہوا اس کا کوئی تو ذمہ دار ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آج بھی شکایات مل رہی ہیں کہ لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ بعض لوگ خود بھی چلے جاتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ریاست تفتیش کرکے بتا دے لوگ خود گئے ہیں، لوگ خود بھی جاتے ہیں مگر ریاست کی بھی تو کوئی ذمہ داری ہے؟ عدالت کا کہنا تھاکہ اس ملک میں تو پولیس ماورائے عدالت قتل کرتی رہی ہے، کرنل انعام الرحیم کا کہنا تھاکہ عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، چیف جسٹس نے کرنل انعام الرحیم سے مکالمہ میں کہاکہ آپ نے گزشتہ سماعت پر ایک اہم معاملے کی جانب توجہ مبذول کروائی تھی، کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھاکہ ایسے دس کیسز موجود ہیں کہ لوگ مسنگ ہوئے اور بعد میں پتہ چلا کہ انکا ٹرائل چلا کر سزا سنا دی گئی، ہمیں بعد میں جیل سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا ٹرائل کر کے کچھ کو تو سزائے موت سنا دی گئی، ملٹری کورٹس کا آرڈیننس ختم ہو جانے کے بعد بھی انکو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ جن لوگوں کا ٹرائل کیا گیا کیا انکی فیملیز کو بھی اس حوالے سے معلوم نہیں تھا؟ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہاکہ نہیں، انکی فیملیز کو بھی بعد میں جیل سے معلوم ہوا، چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھاکہ یا تو یہ بتا دیں کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے، پولیس، آئی بی اور آرمڈ فورسز کی ایجنسیز پر بھی الزام لگایا جاتا ہے،انعام الرحیم ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ عدالت وزیراعظم کو ذمہ دار ٹھہرائے انہیں سب معلوم ہوتا ہے، یہ جتنے کیسز ہیں ان میں کسی ایک کا بھی بتا دیں کہ اسے کس نے اٹھایا ہے؟آمنہ مسعودجنجوعہ نے کہاکہ وزیر دفاع کو نوٹس جاری کرنا چاہیے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ وزیر دفاع کس کے ماتحت ہے؟ یا تو وزیراعظم کہہ دے کہ وہ بے بس ہیں،اگر وزیراعظم بے بس نہیں ہے تو آئین انہیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے،وزیراعظم کو پھر اس عدالت کے سامنے یہ کہہ دینا چاہیے تاکہ عدالت کسی کے خلاف کارروائی کرے،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت آئندہ سماعت تک وقت دے اٹارنی جنرل خود عدالت کی معاونت کرینگے، چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہاکہ آپ نے تو جو اس عدالت کے آرڈر کے ساتھ کیا اس کے بعد تو کچھ کہنا بنتا ہی نہیں،ریاست ٹریس کر کے رپورٹ دیدے کہ وہ چلے گئے ہیں،اس بات سے اختلاف نہیں کہ لوگ خود چلے جاتے ہیں لیکن ریاست کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بات بھی درست ہے کہ ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے، اس ملک میں ماورائے عدالت قتل کیے جاتے رہے ہیں، پولیس کرتی رہی ہے، آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ یہ عدالت وزیراعظم کو سمن جاری کرے تاکہ ان پر پریشر پڑے،انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو شوکاز نوٹس جاری کیا جانا چاہیے عدالت نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل پاکستان کب تک وطن واپس آجائیں گے، ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ امتیاز نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کی واپسی ممکنہ طور پر دس دن ہوجائے گی۔عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل 25 مئی کے عدالتی آرڈر پر عمل درآمد سے متعلق عدالت کومطمئن نہیں کر سکے، لاپتہ افراد سے متعلق کابینہ کی طرف سے تشکیل کردہ کمیٹی کا نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش کیا گیاہے ، عدالت نے قراردیا ہے کہ وفاقی حکومت بادی النظر میں لاپتہ افراد کیس میں عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کر کے ناکام رہی، اس اسٹیج پر عدالت پر ظاہر ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کا معاملہ سیریس نہیں لیا، وزرات داخلہ 25 مئی کے اس عدالت کے حکم پر عمل درآمد یقینی بنائے،اس کیس میں مزید کوئی التوا نہیں دیا جائے گا عدالت نے ہدایت کی ہے کہ فریقین آئندہ سماعت پر دلائل دیں، عدالت نے کیس کی مزیدسماعت 4 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔