گستاخانہ مواد کی تشہیر کی روک تھام: آرٹیکل 19 سے متعلق مہم تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چلانے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کی روک تھام کے لئے آرٹیکل 19 سے متعلق مہم تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے ناصر سلطان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی اس موقع پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے بتایا کہ متنازعہ پیجز چلانے والے ستر افراد کی نشاندہی کی گئی ہے کئی بیرون ملک مقیم ہے اس معاملے پر واشنگٹن میں ایک افسر کو بھی مقرر کردیا گیا ہے جبکہ انٹرپول کے سائبر ونگ سے بھی رابطہ کیا جاچکا ہیں متنازعہ مواد فیس بک کے زریعے اپ لوڈ ہونے پر فیس بک کی ہائی کمان سے بھی رابطہ کیا ہے اب ان کے حتمی جواب کا انتظار ہیں۔جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈائریکٹر ایف آئی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہانیاں نہ سنائیں، حساس معاملہ ہے عدالت کو پیش رفت سے آگاہ کریں آپ یہ بتائیں کہ ملزمان کو پکڑنے کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی؟ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ اس معاملے میں شامل افراد امریکہ ، ناروے اور سوئیڈن میں مقیم ہیں ان کی گرفتاری کے لئے انٹرپول کے سائبر ونگ سے رابطے میں ہیں جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے ایف آئی اے کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو ٹریس کرنے کے حوالے سے ایف آئی اے کی کارکردگی متاثر کن نہیں آپ چاہتے ہیں کہ آپ پر اعتماد چھوڑ کر عسکری اداروں سے مدد لیں۔ انہوں نے تاریخی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں پیسہ نہیں ہے لیکن حضور پاک کی شان تو ہے یہ ضروری نہیں کہ جس کیس میں پیسہ ہو آپ وہی کیس کریں۔عدالت نے اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل کو حکمدیا کہ ایک کمیٹی بنائے جس میں چئیرمین پیمرا اور ڈی جی ٹیکنیکل کو شامل کیا جائے جس کا کام مارننگ شوز، ٹاک شوز اور ٹی وی پر چلنے والے مواد کا جائزہ لینا ہے اپنے ریمارکس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے نبوت کا دعوی کرنے والے ناصر سلطان کا نام ای سی ایل میں ڈالتے کا حکم دیتے ہوئے اسے معاملے پر تفصیلی رپورٹ طلب کرلی انہوں نے ہدایت جاری کی کہ آئین کے مطابق غیر مسلم افراد کو اس پروسس میں نہ ڈالا جائے ساتھ ہی جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایڈوکیٹ جنرل کو ہدایت جاری کی کہ آئندہ سماعت پر علما سے بھی مشاورت کی جائے اس کے ساتھ کیس کی مزید سماعت 22 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔