بھارتی فوج کی ریاستی دہشتگردی: جنوبی کشمیرمیں کشمیریوں کے گھر مویشیوں سمیت جلادیئے۔
بھارتی فوج اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان ایک طویل تصادم کے بعد جنوبی کشمیر میں شوپیان ضلع کے راولپورہ گاوں کا لون محلہ خاکستر مکانوں، ادھ جلے کپڑوں اور جل کر کوئلہ ہونے والے مویشیوں کا ڈھیر معلوم ہوتا ہے۔ زرائع کے مطابق اسی بستی میں مقامی نوجوان ولایت لون عرف سجاد افغانی اپنے ساتھی جہانگیر احمد کے ہمراہ فورسز کے ساتھ تین روز تک جاری رہنے والی خون ریز جھڑپ کے بعد مارے گئے ۔ جھڑپ کے دوران کئی رہائشی مکان، گا خانے اور دوسری املاک خاکستر ہوگئیں۔۔ گزشتہ چند برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ دو مسلح نوجوانوں کے خلاف آپریشن تین روز تک جاری رہا جس کے دوران پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں نے وسیع علاقے کو محاصرے میں رکھا۔انسپکٹر جنرل پولیس وجے کمار نے دعوی کیا کہ محاصرے کے فورا بعد کئی مرتبہ محصور عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی گئی تاہم انھوں نے فورسز پر فائرنگ کی جس کے بعد شدید تصادم شروع ہوا۔مقامی لوگوں کے مطابق تصادم کے دوران شدید فائرنگ کی گئی اور مارٹرگولوں کا استعمال کیا گیا۔ جھڑپ اس قدر شدید تھی کہ لون محلے کے رہائشی ابھی تک خوف اور صدمے میں مبتلا ہیں۔ پولیس کے مطابق منگل کی دوپہر کو یہ آپریشن ختم ہو گیا۔غلام محمد کا مکان بھی ان پانچ مکانات میں شامل ہے جو فوجی کارروائی میں تباہ ہوگیا۔ وہ کہتے ہیں: 'جان بچاتے ہوئے ہمارے گھر کے سب ہی 13 لوگ کچن میں دبک کر رہ گئے اور رات بھر گولیوں اور مارٹرگولوں کی آواز سے ہمارے کان پھٹ گئے۔ جب حالات زیادہ خراب ہو گئے تو فوج اور پولیس نے دوسری صبح ہمیں نکال کر دوسرے مکان میں شفٹ کردیا۔'غلام محمد کا کہنا ہے کہ کم از کم نصف درجن مکان مکمل طور پر خاکستر ہو گئے ہیں اور ان میں ولایت لون کا مکان بھی ہے۔ وجے کمار کے مطابق ولایت فورسز کے لیے نہایت مطلوب عسکریت پسند تھا۔غلام محمد کا کہنا ہے کہ ان کا دو منزلہ مکان اور گا خانہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے جبکہ مارٹرگولوں سے لگنے والی آگ میں چار بھیڑیں اور ایک گائے بھی جھلس گئی۔والدین، بیوی، تین بچوں اور گھر کے دیگر افراد کے ہمراہ رات بھر فائرنگ کے دوران ایک ہی کمرے میں پھنسے رہنیو الے غلام محمد کہتے ہیں: 'ہم کو ایک وقت لگا ہم سب جل کر مر جائیں گے۔ پھر ہم نے ڈی سی صاحب اور ایس پی صاحب کو فون کیا، شکر ہے انھوں نے فون اٹھایا اور فوج اور پولیس کی مدد سے ہمیں جھڑپ کے دوران ہی مکان سے نکلوایا۔'اس جھڑپ کے بعد مقامی لوگوں نے حکومت مخالف مظاہرے کیے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آہنی چھروں اور اشک آور گیس کا استعمال کیا جس کے نتیجہ میں کئی افراد زخمی ہوگئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ تیس برس کے دوران سینکڑوں مکان تباہ ہو گئے۔ شوپیان کے رہنے والے ایک تاجر تاج الدین نے بتایا کہ اکثر اوقات ایسی جھڑپوں میں عام لوگوں کی جائیداد کو پہنچنے والے نقصان کا حکومت کوئی معاوضہ نہیں دیتی۔ جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ اب بھی کشمیر میں کم از کم 200 مسلح عسکریت پسند سرگرم ہیں۔ پولیس نے اس دوران سرینگر میں سرگرم کئی عسکریت پسندوں کو اشتہاری مجرم قرار دے کر ان کے سر پر نقد انعامات کا بھی اعلان کیا ہے۔