اصغرخان کیس:اسلم بیگ سیاسی عمل میں مداخلت سے گریز کرتے تو بارہ اکتوبر آتا نہ تین نومبر۔ چیف جسٹس
اصغرخان کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ ایوان صدرکے سیکرٹری ملک آصف حیات نے عدالت کو بتایاکہ موجودہ صدر ستمبردوہزارآٹھ میں اقتدار میں آئے، اُس کے بعد سے ایوا ن صدر میں کوئی سیاسی سیل نہیں،ججز کے پوچھنے پر سیکرٹری نے بتایاکہ ممکن ہے کہ انیس سو نوے میں وہاں کوئی الیکشن انفارمیشن سیل ہو، ابھی صدر کے ملٹری سیکرٹری بیرون ملک ہیں، ان کی فائلیں دیکھ کر مزید جواب دیا جاسکتا ہے، عدالت نے سیکرٹری ایوان صدر سے انیس سو نوےکے سیاسی سیل سے متعلق پھر جواب طلب کرلیا،دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ آئین کے تحت صدر کسی سیاسی جماعت کا نہیں، ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ اکرم شیخ نے دلائل دیے کہ اسلم بیگ سیاسی عمل میں مداخلت نہ کیےجانے کے حامی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی کو سیاسی عمل آلودہ کرنے سے روکنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلم بیگ کو بطور آرمی چیف ایسی مداخلت سے گریز کرنا چاہیے تھا اگر اسلم بیگ اس بات کا ادراک پہلے کرلیتے توبارہ اکتوبر آتا نہ تین نومبر۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ فوج کے ادارے کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا رقوم کی تقسیم اسلم بیگ اور اسد درانی کا انفرادی فعل تھا۔ سماعت کے دوران عدالت کو بتایاگیاکہ سابق ایم آئی آفیسر بریگیڈئرحامد سعید خرابی طبیعت کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکےتاہم انہوں نے کل پیش ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے۔